معروف صحافی ارشد شریف کو کینیا میں قتل کردیا گیا تھا جہاں کی عدالت متاثرہ فیملی کوہرجانہ بھی اداکرنے کا حکم دے چکی ہے اور اب اس ساری صورتحال بارے ارشد شریف کی بیوہ جویریہ صدیقی کھل کر بول پڑیں اور جیونیوز کیلئے اپنے بلاگ میں ان حالات کی بھی منظر کشی کی جس کی وجہ سے ارشد شریف کو پاکستان چھوڑنا پڑا۔
جویریہ صدیقی نے اپنے بلاگ میں لکھا کہ ’’ میں اور ارشد شریف بارہ سال رشتہ ازدواج میں منسلک رہے اور انکی موجودگی میرے لئے مسرت اور تحفظ کا ضامن تھی۔ 2022 کے اوائل ایک روٹین کا دن تھا اور میں کالم مکمل کر رہی تھی کہ ارشد نے مجھے لائبریری میں آکر بتایا کہ ان پر ایف آئی آر ہو گئی ہے۔ اس سے پہلے بھی انکو2017 میں مقدمے کا سامنا کرنا پڑا تھا جس میں انکی گرفتاری کا خدشہ تھا اور پیمرا کے دفتر میں الگ پیش ہونا پڑتا تھا۔
جو ایف آئی آرز 2022 میں ان پر درج ہوئیں وہ زیادہ تر بغاوت کے مقدمے تھے۔ کوئی بھی چائے پیتا ہوا یوٹیوب اور ٹی وی پر انکے تبصرے کو پاکستان مخالف کہہ کر ان پر پرچہ کرا دیتا۔ ایک وقت آیا کہ ملک بھر میں ان پر درجن بھر ایف آئی آرز ہو گئیں۔ ہمارے گھر مشکوک لوگوں نے رات کے دو بجے گھسنے کی کوشش کی۔ رمضان کے دن تھے میں قرآن پڑھ رہی تھی، ارشد گھر پر نہیں تھے۔ میں نے سی سی ٹی وی کی فوٹیج انکو بھیجی۔ وہ چپ رہے اور عدالتی نظام سے اپنے لئے انصاف کی توقع کرنے لگے۔ پھر ان کو میسجز پر اور پھر براہ راست بھی دھمکیاں ملنے لگیں۔ کہا جاتا کہ چپ رہو ورنہ سر میں گولی ماریں گے۔ وہ مسلسل دھمکیوں کی وجہ سے دس اگست کو اچانک بڑی عجلت میں دبئی چلے گئے۔ وہ صرف پاکستانی شہریت رکھتے تھے اور بہت سے ممالک کا ویزہ کسی دوسرے ملک سے اپلائی نہیں کر سکتے تھے۔ چنانچہ ان کو کینیا جیسے ملک میں جانا پڑا۔
میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ جو دھمکیاں ان کو پاکستان میں ملیں بالکل ویسے ہی ان کو کینیا میں قتل کروایا جائیگا۔ یہ بات میرے لیے ناقابل یقین تھی۔ کینیا میں وہ عارضی طور پر گئے تھے وہ کسی سے بھی نہیں ملتے تھے۔ نہ ہی وہاں انکے کوئی دوست تھے نہ دشمن، کینیا کی پولیس کو کرائے کے قاتل کے طور پر استعمال کیا گیا۔ ارشد کی شہادت نے ہم سب کو توڑ دیا۔ میں بہت دیر تو یہ سوچتی رہی کہ یہ سب سچ نہیں لیکن جب گاڑی میں گولی لگی تصاویر مجھ تک جان بوجھ کر پہنچائی گئیں تو مجھے سچ معلوم ہوا ۔
ارشد کا جسد خاکی پاکستان آیا تو عوام کا ہجوم ان کے استقبال کیلئے آگے آگے تھا۔ میں سرد خانے میں انکی میت کے ساتھ بیٹھی تھی۔ میں نے اپنی تمام تر قوت جمع کر کے دیکھا تو ارشد بالکل مطمئن ابدی نیند سو رہے تھے۔ ارشد کو بہت قریب سے گولی ماری گئی تھی۔ سر کا زخم بہت بڑا تھا اور ایک آنکھ سوجی ہوئی تھی۔ انکے بنا ناخن کے ہاتھ ایک اینکر نے پمز سے تصاویر حاصل کر کے بطور بریکنگ چلا دی۔ مجھے بہت تکلیف ہوئی میں نے دونوں ممالک کی پوسٹ مارٹم رپورٹ پڑھی تو میں اور تڑپ تڑپ کر روئی کہ ایک گردہ نہیں تھا، ناخن نہیں تھے، جسم پر تشدد کے نشانات تھے۔
میں نے جب ارشد کو دیکھا تو اسی وقت کہا تھا نہ یہ شناخت کی غلطی کا معاملہ ہے نا چلتی ہوئی گاڑی میں ارشد شریف کو گولی لگی ہے۔ انکو روک کر شناخت کے بعد تشدد کر کے قتل کیا گیا۔ میں عدت میں باہر نہیں جا سکتی تھی اور کوئی ہمارا کیس لینے کو تیار نہیں تھا۔ صدمے کی وجہ سے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرنا ہے میں نے اس وقت کے صدر پاکستان عارف علوی اور چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو خط لکھا اور انتظار کرنے لگی کہ کب جواب آئے؟ سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے ہزاروں خط سپریم کورٹ کو موصول ہوئے۔ اس کے بعد سپریم کورٹ نے ارشد شریف قتل کیس پر سوموٹو لے لیا۔
عمران ریاض بھائی کے کہنے پر وکیل میاں علی اشفاق کی ٹیم نے میری طرف سے پیروی کرنے کا فیصلہ کیا۔ جس وقت ارشد کی والدہ نے اپنی درخواست سپریم کورٹ میں پیش کی تو کورٹ روم سے انکے وکلا سمیت بہت سے لوگ چلے گئے۔ یوں انکے پاس کئی ماہ لیگل نمائندگی موجود نہیں تھی۔ پھر میں نے سوشل میڈیا پر اپیل کی تو سینئر کورٹ رپورٹر ثاقب بشیر کے توسط سے جسٹس (ر) شوکت صدیقی نے ارشد کی والدہ کی پیروی کیلئے رضا مندی ظاہر کی۔ کچھ عرصہ تو کارروائی ہوئی لیکن چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے جانے کے بعد سے ارشدکے کیس کی سنوائی نہیں ہوئی۔ نہ ہی ارشد شریف کے اہل خانہ اپنی مدعیت میں ایف آئی آر درج کروانے میں کامیاب ہو سکے ہیں۔
پاکستان کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے کینیا میں کیس فائل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس دوران مجھے خود ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا اور مجھ پر عدت میں شادی کا جھوٹا الزام لگا کر مکمل کمپین چلائی گئی۔ اس دوران عالمی صحافتی ادارے ہر قدم پر میرے ساتھ رہے لیکن پاکستان کا میڈیا بری طرح تفریق کا شکار رہا۔ کسی کو میرے ٹوئٹ کرنے پر اعتراض تو کسی کو میرے انصاف کی جدوجہد سے مسئلہ تھا۔
عملی طور پر کینیا کا کیس میں نے تنہا لڑا مجھے پاکستان سے کسی کی معاونت حاصل نہیں تھی۔ کینیا کی پولیس یا حکومت کی ہم سے کوئی براہ راست دشمنی تو نہیں تھی لیکن انہوں نے کرائے کے قاتل بن کر ارشد کو قتل کیا۔ اس لیے ان لوگوں کو سزا دلوانے کی جدوجہد کرنا شروع کی جنہوں نے گولی چلائی، کس کے ایما پر چلائی اسکا فیصلہ پاکستان میں ہونا باقی ہے۔ میرے ساتھ نہ صحافتی برادری کھڑی تھی نہ ارشد کے دوست احباب، الٹا بہت سے لوگوں نے مجھے بد دل کیا کہ کینیا میں کیس مت کرو یہ وقت اور پیسے برباد کرنے والی بات ہے۔ میں چونکہ پاکستان کی شہری تھی تو انکی عدالت میں مقدمہ لڑنے کیلئے انکی یونین آف جرنلسٹ اور نامہ نگاروں کی ایسوسی ایشن میرے ساتھ درخواست کا حصہ بن گئی تاکہ میری درخواست غیر ملکی ہونے پر رد نہ ہو جائے۔
مقدمے کا آغاز اکتوبر 2023 میں ہوا اور جولائی 2024 میں اس کیس کا فیصلہ ہمارے حق میں آیا۔ ایک سنوائی پر میں نے خود دلائل دیے اسکے علاوہ بھی جج نے مجھے بولنے کا موقع دیا۔ کجیاڈو ہائی کورٹ کی جج سٹیلا موٹوکو نے تاریخ ساز فیصلے میں شناخت کی غلطی والے مؤقف کو رد کردیا۔ اس جھوٹ کو پاکستان میں بھی بہت بیچا گیا لیکن عدالت نے کہا پاکستانی صحافی ارشد کو ٹارچر کے بعد قتل کیا گیا۔ عدالت نے ایک بے گناہ انسان کے قتل کو پولیس کے مجرمانہ اور آمرانہ رویہ سے تشبیہ دی۔ اس فیصلے کو پاکستان اور کینیا دونوں کے میڈیا نے ہیڈلائنز میں جگہ دی۔ کچھ لوگوں نے یہ فیصلہ پاکستان میں اپنے حساب سے سنانا شروع کر دیا۔
میں صرف اتنا کہوں گی کہ گزشتہ چھ ماہ میں پاکستان کے اندر سات صحافی قتل ہوئے ہیں۔ اگر آپ لوگ یوں ہی قتل پر تاویلیں دیتے رہیں گے تو مزید صحافی ظلم کی زد میں آئیں گے۔ اب بھی وقت ہے متحد ہو جائیں تاکہ پاکستان میں آزادی صحافت اور آزادی رائے برقرار رہ سکے۔ نظریاتی اختلاف کی وجہ سے اپنے ان ساتھیوں پر بہتان تراشی مت کریں جو اپنے دفاع کیلئے دنیا میں موجود نہیں۔ اگر آپ انکے اہل خانہ کے ساتھ نہیں کھڑے ہوئے تو ان کے زخموں پر نمک پاشی بھی نہ کریں۔ کیس کا فیصلہ 45 صفحات پر مشتمل ہے اور اس فیصلے کی سمری 107ویں نمبر پر درج ہے اگر انگریزی سے اردو ترجمہ کرنے میں دقت ہے تو کسی کی مدد لے لیں لیکن فریقین کے مکالمے اور انکے دلائل کو فیصلہ مت کہیں۔ ایک سال سے ارشد شہید کے قتل کیس کی سماعت نہیں ہوئی مجھے امید ہے اب میرے وہ سینئر اور جونیئرز کولیگز جو بے باک صحافت کر رہے ہیں، میرا ساتھ دیں گے جیسے کینیا کے ان صحافیوں نے دیا جو مجھے اور ارشد کو جانتے بھی نہیں تھے‘‘۔