arshad sharif karachi ka beta

ارشد شریف کراچی کا بیٹا

تحریر: جویریہ صدیق۔۔
کراچی سے مجھے ایک اُنسیت سی ہے۔ جب ارشد شریف سے میری پہلی ملاقات ہوئی تو یہ جان کر خوش گوار حیرت ہوئی کہ ارشد بھی کراچی میں پیدا ہوئے۔ ہم کافی دیرکراچی کی باتیں کرتے رہے۔ میرا بہت کم وقت کراچی میں گزرا لیکن ارشد کا کافی وقت وہاں گزرا۔ شادی کے بعد ہم جب کراچی گئے تو حالات وہاں ٹھیک نہیں تھے۔ مجھے ساحلِ سمندر پر جاناہوتا تھا‘ فوٹوگرافی اور شاپنگ کے لیے جانا ہوتا تھا لیکن کراچی کی بے تحاشا فضائی آلودگی‘ سٹریٹ کرائمز اور ٹارگٹ کلنگ کی وجہ سے یہ تقریباً ناممکن ہو جاتا تھا۔ ایک بار میں اکیلے کلفٹن میں شاپنگ کر رہی تھی کہ اچانک وہاں گولیاں چلنا شروع ہو گئیں۔ میں اسلام آباد کے ماحول میں پلی بڑھی ہوں‘ اس صورتحال سے میرا تو خون خشک ہو گیا‘ اوپر سے دکان دار نے دکان کا شٹر بند کر دیا۔ میں نے اسے کہا کہ آپ پلیز دکان کا شٹر کھول دیں‘ مجھے جانا ہے۔ لیکن وہ اطمینان سے میرا سامان پیک کرتا رہا اور پھر اچانک سے بولا کہ شکل سے تو آپ کراچی والی لگ رہی رہیں پھر اتنا پریشان کیوں ہو گئی ہیں‘ یہ تو یہاں روز کا معمول ہے۔ میں نے جب بتایا کہ میں اسلام آباد سے آئی ہوں تو کہنے لگا تبھی آپ خوفزدہ ہوگئیں۔ جیسے ہی یہ ڈاکو یہاں سے چلے جائیں گے‘ میں شٹر کھول دوں گا۔ میں نے دوسرے خریداروں کی طرف دیکھا‘ وہ سب اطمینان سے شاپنگ کر رہے تھے۔ میں نے ارشد کو فون کیا اور صورتحال سے آگاہ کیا۔ جیسے ہی وہاں حالات نارمل ہوئے دکان دار نے شٹر کھول دیا اور میں نے گاڑی میں جاکر اپنا سانس بحال کیا۔ واپس ہوٹل گئی اور اس کے بعد کبھی کراچی میں اکیلے خریداری کے لیے نہیں نکلی۔ پھر ارشد کو کراچی میں جان سے مارنے کی دھمکیاں ملیں لیکن وہ نہیں ڈرا اور اپنا کام جاری رکھا۔ بہادری اس کے خمیر میں تھی۔ مجھے یاد ہے کہ جب میرے والدین ہمیشہ کے لیے اسلام آباد شفٹ ہو گئے‘ اس دن بھی کراچی میں آگ لگی ہوئی تھی۔ فائرنگ ہو رہی تھی۔ بل بورڈز پر کالا رنگ پھینکا جا رہا تھا اور فضا میں ٹائروں اور آنسو گیس کا دھواں تھا۔ میں اس وقت بہت چھوٹی تھی اور کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہورہا ہے‘ میرے والدین کی آنکھیں بھی نم تھیں۔ میرے والد کے کاروباری مرکز پر جب تین چار بار ڈکیٹ آئے تو میرے دادا نے میرے والد کو کہا کہ اسلام آباد شفٹ ہو جاؤ۔ ہم دادا‘ دادی کو بہت یاد کرتے تھے اور میرے والدین تو اب تک کراچی کی محبت میں مبتلا ہیں۔ روشنیوں کے شہر کو دہشت گردی‘ بدامنی‘ ٹارگٹ کلنگ اور لسانی سیاست نے تاریکی میں ڈبو دیا۔
کراچی کے بہت سے بیٹوں کو دہشت گردی نگل گئی۔ یہ سب ایک دوسرے سے الگ تھے۔ الگ الگ شعبوں سے تعلق تھا۔ پر سب میں ایک قدر مشترک تھی کہ وہ سبھی کراچی کے بیٹے تھے۔ ان بیٹوں کو قتل کیا گیا اور قاتل تا حال قانون کے ہاتھ نہیں آئے۔ مولانا صلاح الدین پاکستان کے نامور صحافی تھے اور ایک ہفت روزہ رسالہ نکالا کرتے تھے۔ انہیں چار دسمبر 1994ء کو دہشت گردوں نے اندھا دھند فائرنگ کرکے شہید کر دیا۔ انہیں سترہ گولیاں لگیں۔ ان کے جسدِ خاکی کی جو تصویر اگلے روز اخبار میں چھپی تھی وہ آج بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے۔ حکومتِ پاکستان نے انہیں 14 اگست 1997ء کو ہلالِ امتیاز کے اعزاز سے سرفراز کیا لیکن ان کے قاتل تاحال نہیں مل سکے اور ابھی تک صحافیوں کو قاتلانہ حملوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے فرزند‘ بے نظر بھٹو کے بھائی اور پاکستان پیپلز پارٹی شہید بھٹو گروپ کے سربراہ میر مرتضیٰ بھٹو کو 20ستمبر 1996ء کو ان کی رہائش گاہ ستر کلفٹن کے قریب ان کے چھ ساتھیوں سمیت مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کر دیا گیا۔ جیالوں کا مؤقف یہ تھا کہ یہ مبینہ پولیس مقابلہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔ میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل کی ایف آئی آر درج ہوئی‘ مقدمہ چلا‘ کئی کمیشن بنائے گئے لیکن ملک کی وزیراعظم اپنے بھائی کے لیے بھی انصاف حاصل نہ کر سکیں۔
بچپن میں ہمارے گھر میں بہت سے اخبارات اور رسالے آتے تھے جن میں حکیم محمد سعید کا ہمدرد نونہال بھی تھا۔ میں اسے بہت شوق سے پڑھتی تھی۔ محمد سعید مایہ ناز حکیم ہونے کے ساتھ ساتھ کمال کے مصنف اور سماجی کارکن بھی تھے۔ ان کی ساری زندگی حکمت اور درس و تدریس میں گزری۔ پھر 17اکتوبر 1998ء کو ان کے قتل کی خبر آئی۔ جس شخص کی ساری زندگی کراچی کی خدمت میں گزری اسے گولیوں کا نشانہ بنا دیا گیا۔ جس روز انہیں قتل کیا گیا وہ روزے کی حالت میں تھے اور کسی مریض کو دیکھنے جا رہے تھے‘ اس وقت ان کی عمر 78برس تھی۔ ایسے انسان دوست شخص سے کسی کو کیا دشمنی ہو سکتی ہے۔ پر دنیا کی یہ ریت ہے کہ اچھے لوگوں پر دنیا تنگ کردی جاتی ہے۔ ان کے قتل میں نامزد تمام ملزمان رہا ہو گئے۔ 30مئی 2004ء کو معروف عالمِ دین مفتی نظام الدین شامزئی بھی اندھا دھند فائرنگ کا نشانہ بنے۔ 2006ء میں علامہ حسن ترابی اپنے بھانجے سمیت ایک بم دھماکے میں شہید ہوئے۔ 19دسمبر 2007ء کو پاکستان کے نامور مصور اور خطاط اسماعیل گل جی اپنی اہلیہ اور گھریلو ملازمہ کے ساتھ اپنی رہائش گاہ واقع کلفٹن میں مردہ پائے گئے۔ پولیس نے اس واردات کو قتل قرار دیا اور پولیس کے مطابق ان تینوں کے منہ پر کپڑا باندھ کر قتل کیا گیا تھا۔ کراچی کے کتنے ہی بیٹے دہشت گردی‘ بم دھماکوں‘ ٹارگٹ کلنگ اور لسانی سیاست کی نذر ہو گئے۔ یوں تو کراچی کی بیٹیوں پر بھی ظلم ہوئے‘ ان واقعات کا ذکر پھر کبھی سہی‘ آج صرف کراچی کے بیٹوں کا ذکر کررہی ہوں۔
13جنوری 2011ء کو جواں سال رپورٹر ولی خان بابر کو قتل کر دیا گیا اور 2021ء میں دس سال بعد ان کے قتل میں ملوث تمام چھ ملزمان کو بری کر دیا گیا۔ ولی خان بابر کے قتل سے صحافی برادری میں خوف و ہراس پھیل گیا تھا۔ 24دسمبر 2012ء کو شاہ رخ جتوئی اور ان کے ساتھیوں نے تلخ کلامی کے بعد فائرنگ کرکے شاہ زیب خان کو قتل کر دیا تھا۔ گزشتہ برس اکتوبر میں شاہ زیب قتل کیس میں ملوث تمام ملزمان بھی بری ہو چکے ہیں۔ 2012ء میں ہی کراچی میں عالمی ادارۂ صحت کے لیے کام کرنے والے کارکن اسحاق نور کو قتل کر دیا گیا۔ 2013ء میں ایم کیوایم کے رہنما منظر امام قتل ہوئے۔ 2014ء میں پروفیسر شکیل اوج‘ علامہ علی اکبر کمیلی‘ پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال‘ علامہ تقی ہادی اور چوہدری اسلم کو نشانہ بنایا گیا۔ کراچی کے یہ بیٹے اپنی جان کی بازی ہارگئے۔ اس کے بعد بھی بہت سی نامور شخصیات اور کراچی کے بیٹوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا جن میں ایک شخصیت امجد صابری تو سب کو رُلا گئی۔ امجد صابری مشہور نعت خواں‘ مرثیہ گو اور قوال تھے۔ انہیں 22جون 2016ء کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ اس سانحے نے ساری فنکار برادری کو رنجیدہ کیا۔ ان کے اہلِ خانہ بھی کراچی سے لاہور چلے گئے۔ 2018ء میں کراچی کے ایک اور بیٹے نقیب اللہ محسود کو مار دیا گیا‘ یہ بھی ایک جعلی پولیس مقابلہ تھا۔
25دسمبر 2018ء کو کراچی کا ایک اور بیٹے علی رضا عابدی کو بھی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ آج بھی لوگ اچھے الفاظ میں ان کا ذکر کرتے ہیں۔ ان کی اہلیہ اور بچے ملک چھوڑ کر چلے گئے جبکہ والدہ اب بھی کراچی میں مقیم ہیں اور انصاف کی منتظر ہیں۔ مرید عباس‘ جوکہ ایک اینکر تھے انہیں بھی جولائی 2019ء میں کاروباری تنازع میں قتل کردیا گیا ان کی بیوہ آج بھی انصاف کی منتظر ہے۔اکتوبر 2022ء میں کراچی کے بیٹے ارشد شریف کو کینیا میں قتل کردیا گیا‘ تاحال ان کے مجرمان میں کسی کو بھی گرفتار نہیں کیا گیا۔ ارشد شریف پر جب یہاں زمین تنگ ہو گئی تو انہوں نے سوچا کچھ عرصہ ملک سے باہر رہوں گا اور حالات ٹھیک ہونے پر وطن لوٹ آؤں گا لیکن ان کو کینیا میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ تاحال کوئی مجرم گرفتار نہیں ہوا ہے۔ مارچ 2023ء میں ماہر امراضِ چشم ڈاکٹر بیربل کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ وہ ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ مارچ ہی میں علامہ صوفی عبدالقیوم کو بھی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔
میں یہاں سٹریٹ کرائمز میں قتل ہونے والوں کے نام لکھنا شروع کروں تو شاید کالم ختم ہو جائے گا لیکن مقتولوں کی فہرست ختم نہیں ہو سکے گی۔اگر کراچی کے قتل ہونے والے ایک بیٹے کو ہی انصاف مل جاتا تو باقی شاید اپنی طبعی عمر جی پاتے۔ آج بھی ان بیٹوں کے خاندان انصاف کے منتظر ہیں۔(بشکریہ دنیانیوز)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں