arshad sharif ka qatal or sahafati tanzeemein

ارشد شریف کا قتل اور صحافتی تنظیمیں

تحریر: بادشاہ خان۔۔

اگرچہ ارشد  شریف کا قتل پاکستان سے باہر کینیا میں ہوا ہے،اور کینیا ایسا ملک نہیں کہ جہاں شفاف تحقیقات ہوں،اور پھر منظر عام پر بھی آسکے، لیکن ارشد شریف کے قتل نے پاکستان میں صحافیوں کے تحفظ کے معاملے کو دنیا پر آشکار کردیا ہے، صحافت اور آزادی صحافت پر سوالیہ نشان مزید بڑا کردیا ہے، پاکستانی صحافی اب ملک سے باہر بھی محفوظ نہیں، ہوسکتا ہے،کہ ارشد شریف کے ساتھ حادثہ ہوا ہو،لیکن کوئی بھی ماننے کو تیار نہیں، اگر پاکستان میں ارشد شریف کو دھمکیاں نہیں دی جاتی تو شائد وہ ملک سے نہیں جاتا،ارشد شریف کے قتل کے بعد پاکستانی قوم اور صحافیوں میں نئی سوچ جاگ رہی ہے،اور احتجاج بھی ہورہے ہیں، کراچی پریس کلب سمیت صحافی تنظیموں نے ارشد شریف کے قتل کی مذمت بھی کی ہے،اور آئندہ چند روز میں مظاہرے بھی ہونگے، کئی صحافی لیڈر ابھی سے تقریروں کی تیاری بھی کررہے ہونگے، لیکن کیا مذمت اور تقریروں سے آزادی رائے کو تحفظ مل سکے گا؟کیا صحافی سچ بول،لکھ سکے گا؟ یا ایک محدود آزادی کے سلو گن اور نشے میں مگن رہے گا؟بہت بڑے سوال ہیں؟ اور جواب تقسیم در تقسیم صحافی تنظیموں کے پاس شائد نہیں ہے؟ایسا محسوس ہورہا ہے کہ حکمران ان آوازوں سے گھبرارہے ہیں،اور چاہتے ہیں کہ ان کی پالیسیوں کے خلاف کوئی آواز بلند نہ ہو،میڈیا کا کردار نمائشی باقی رہ جائے۔

صحافیوں کی عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے پانچ برس ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ پاکستان وہ بدترین ملک ہے جہاں سزا کے خوف سے بالاتر صحافیوں کا قتل کیا جاتا ہے۔۔ یونیسکو کی ایک رپورٹ میں میکسکیو کے بعد پاکستان کو دنیا میں صحافیوں کے لئے دوسرا خطرناک ملک قرار دیا گیاتھا۔صحافت اور صحافی پاکستان میں دونوں بحران سے دوچار ہیں، آئے روز صحافیوں کو کئی قسم کے مسائل کا سامنا ہے،نوکری سے فارغ ہونے سے لیکر موت تک کی دھمکیوں کا سلسلہ جاری ہے، حقائق،سچ اور تصویر کا اصل رخ کرنا پیش کرنا مشکل ہوگیا ہے، صحافیوں کی گرفتاریاں،اور قتل کے واقعات کا سلسلہ جاری ہے،۔انٹرنیشنل یونین آف جرنلسٹ نے پاکستان کو صحافیوں کے لئے خطرناک ممالک کی فہرست میں اوپر رکھا ہوا ہے،صحافتی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کے صوبے بلوچستان میں پچھلے دس برسوں  پچاس سے زائد صحافی مارے گئے ہیں۔

پاکستان میں صحافت جان جوکھم کا کام ہے،سال 2001ء سے دہشت گردی کے خلاف جاری نام نہاد عالمی جنگ  کے بعد سے اب تک پاکستان میں سوسے زیادہ صحافی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کے دوران اپنی جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔، اس سال بھی پاکستان میں صحافیوں کوقتل ،تشدد اور ہراساں کرنے میں کوئی کمی نہیں آئی پاکستان میں گزشتہ ایک دہائی میں چالیس سے زیادہ صحافیوں کو ہدف بنا کر قتل کیا گیا، اورتاحال ایک کے بھی قاتل کیفرِ کردار تک نہیں پہنچے،دیگر صحافیوں کی تعداد الگ ہے۔ اس صورت حال کی ذمہ دار جہاں حکومت ہے وہیں صحافتی تنظیمیں بھی ہیں،جنھوں نے اتنی طویل جدوجہد کے باوجود صحافیوں کے لئے وہ اقدامات نہ کئے ،اور آپس کے ذاتی اختلافات کا شکار  ہوگئے،جس کی وجہ سے یہ طاقتور کہلانے والا طبقہ…… خود اپنی مدد نہیں کرسکا، جس کی ضرورت ہر صحافی کے گھرانے کی بنیادی ضرورت ہے،ہاں البتہ چند افراد ضرور مستفید ہوئے مگر اکثریت آج بھی محروم ہے۔

پاکستان میں ہر دور حکومت میں،ہر سیاسی پارٹی نے صحافیوں کے خلاف طرح طرح کے حربے استعمال کئے،اغوا کرنا، دھمکیاں ملنا الگ تھی،حتی کہ قتل کئے گئے، مسلم لیگ (ن) کے علاوہ جمہوریت کی دعوی دار سیکولر جماعت پیپلز پارٹی کی دور حکومت میں بھی  اخبارات اور صحافیوں کے خلاف متعدد کاروائیاں کی گئیں،کئی صحافیوں کو قتل کیا گیا، پی ٹی آئی کی حکومت میں بھی یہ سلسلہ جاری تھا،اور اس کے بعد اب بھی جاری ہے، جس کی وجہ سے کئی صحافی ملک چھوڑ کر جاچکے ہیں، اور بہت سے جانے کا سوچ رہے ہیں،اس صورت حال کے  باوجود چندبے باک صحافیوں نے ہر دور حکومت میں  سکینڈلز کو بے نقاب کیااورکرتے رہے،ارشد شریف کا نام ان میں سے ایک تھا۔

گذشتہ چند برسوں سے صحافت اور صحافی پاکستان میں دونوں بحران سے دوچار ہیں، آئے روز صحافیوں کو کئی قسم کے مسائل کا سامنا ہے،نوکری سے فارغ ہونے سے لیکر موت تک کی دھمکیوں کا سلسلہ جاری ہے، حقائق،سچ اور تصویر کا اصل رخ کرنا پیش کرنا مشکل ہوگیا ہے، صحافیوں کی گرفتاریاں کا سلسلہ جاری تھم نہیں سکا،،  گذشتہ چار سالوں کے دوران ہزاروں پاکستانی صحافیوں کو جبری برطرفیوں کے ذریعے بے روزگار کیا گیا، مگر سوال یہ ہے کہ صحافیوں کی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کا ردعمل موثر ثابت کیوں نہیں ہورہا؟ ان کے اندر اتفاق و اتحاد کب پیدا ہوگا؟ صحافی برادری سے اپنے بھی خفا ہیں اور اغیار بھی نا خوش ہیں۔

ہم کئی بار لکھ چکے ہیں،کہ اپنے کردار پر بھی توجہ دینی ہوگی،میڈیا قوانین سب پر لاگو کرنے ہونگے جس  سے عوام،حکومت اورصحافی کے بنیادی حقوق کا تحفظ ہوسکے، مگر ایسا نہ ہوا؟ جس کی وجہ سے آج ملک کے طاقتور ستون کا کارکن  بے یارو مددگار ہے؟اس صورت حال کی ذمہ دار جہاں حکومت ہے وہیں صحافتی تنظیمیں بھی ہیں،جنھوں نے اتنی طویل جدوجہد کے باوجود صحافیوں کے لئے وہ اقدامات نہ کئے ،اور آپس کے ذاتی اختلافات کا شکار  ہوگئے،جس کی وجہ سے یہ طاقتور کہلانے والا طبقہ…… خود اپنی مدد نہیں کرسکا، جس کی ضرورت ہر صحافی کے گھرانے کی بنیادی ضرورت ہے،ہاں البتہ چند افراد ضرور مستفید ہوئے مگر اکثریت آج بھی محروم ہے،صحافیوں کو اپنے اس کردار پر غور کرنا ہوگا اس سے پہلے کے مزیددیر ہو جائے ، صحافیوں کے مسائل اور حقوق کے لئے نئے عزم کے ساتھ حل کرنے کے لئے اٹھنا ہوگا  تاکہ اس طبقے کے مسائل کم ہوسکے ۔عزیزاللہ، حیات اللہ،موسی خان خیل،مصری خان اورکزئی، ولی بابر  سے ارشد شریف تک مارے جانے والے صحافیوں کے گھرانے اس بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پیاروں کے قاتل کب گرفتار ہونگے اور کب ان کے حقوق کے تحفظ کے لئے بات مذمت اور تقریروں سے آگے بڑھی گی؟ صحافی تنظیموں کے ایک ہونے کا وقت ہوگیا ہے،اگر ایسا نہ ہوا تو بقول شاعر تمھارا نام  بھی نہیں ہوگا افسانے میں،شائد چند رہنمااب ذاتی مفادات کے اسیر ہیں؟یا پھر کوئی اور وجہ؟  ایک بات واضح ہے کہ ارشد شریف آخری نہیں۔(بادشاہ خان)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں