تحریر: رؤف کلاسرا۔۔
ارشد شریف سے تعلق 1998 ء سے قائم تھا لیکن اُس کے ساتھ رات کی کمپنی زیادہ ہوتی تھی۔ جب ڈاکٹر ظفر الطاف کی وفات کے بعد ارشد شریف نے مجھے ڈپریشن میں دیکھا تو روٹین بدلی۔ اب وہ دوپہرکو اپنے گھر سے نکلتا تو مجھے فون کرتا‘ باس کدھر ہو‘ آئو لنچ کرتے ہیں۔مجھے کسی اور موڈمیں دیکھ کر سختی سے کہتا‘ فلاں جگہ پہنچو‘عدیل راجہ اور علی عثمان کو بھی بلا لیتے۔کھانا کھایا جاتا اور پھر لمبی گپ شپ۔شام چھ بجے خیال آتا یار رات دس بجے شو بھی کرنا ہے۔ گیارہ بجنے سے پہلے ہی علی عثمان کا فون آجاتا کہ ارشد صاحب پوچھ رہے ہیں ڈنر کہاں کررہے ہیں‘اور پھر رات تین بجے تک ہم اکٹھے ہوتے۔اگلے دن دوپہر کو پھر ارشد کی کال آجاتی اور پھر وہی شام چھ بجے اور رات گیارہ بجے۔یوں میں ڈاکٹر ظفرالطاف کی وفات کے صدمے سے کچھ باہر نکلا۔ ارشد کو اندازہ تھا کہ میرا ڈاکٹر ظفرالطاف سے کتنا گہرا تعلق تھا لیکن مجھے محسوس ہوا کہ ارشد شریف کو اُن سے ذاتی رنجش ہے۔دونوں سے میرا بہت گہرا تعلق تھا۔ ڈاکٹر صاحب کو بتایا تو وہ بولے: مجھے تو یاد نہیں‘ ہو سکتا ہے کسی دوست کی وجہ سے فون کر دیا ہو۔ ڈاکٹر صاحب بڑے دل اور ظرف کے مالک تھے‘ کہنے لگے: ارشد اتنا پیارا لڑکا ہے‘ آئی ایم سوری اگر اس کے خاندان کو تکلیف پہنچی۔تم مجھے اس کے گھر لے چلو‘ میں معذرت کر لیتا ہوں۔میں نے ارشد شریف کو کہا‘ ڈاکٹر صاحب سے کسی نے لاعلمی میں ایک ایسا کام کرادیا جس سے تمہارے خاندان کو تکلیف پہنچی ‘ وہ اب معذرت کرنا چاہتے ہیں لیکن تم مناسب سمجھو توان کے ہاں دوپہر چل کر لنچ کرتے ہیں‘اب اتنا بڑا بندہ معذرت کررہا ہے تو جانے دو۔ تم ڈاکٹر صاحب کو جانتے ہو‘ وہ کسی سے ڈرکر معذرت کرنے والے نہیں‘ انہیں میں نے جب تمہاری سائیڈ پوری بتائی تو انہیں خوددکھ ہوا کہ ان کے ایک دوست نے ان کے اعتماد کا ناجائز فائدہ اٹھایا ۔ارشد شریف میری باتیں مان لیتا تھا۔
ارشد بارے ایک دفعہ کالم میں لکھا تھا کہ اسے آپ جذباتی بلیک میل کر کے کوئی بات نہیں منوا سکتے تھے۔اسے آپ نے کسی بات پر راضی کرنا ہے تو دلیل دیں۔وہ بہت ذہین نوجوان تھا اور ایسے لوگ دلیل سے قائل ہوتے ہیں غلیل سے نہیں۔ میں ہمیشہ اس کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھاتا تھا۔ میں نے اسے دوستی کا واسطہ دے کر کوئی بات منوانے کی کوشش نہ کی۔ایک دفعہ ارشد شریف ایک چینل پر بیوروچیف تھا تو اس کا ایک اینکر صحافیوں کے خلاف پروگرام کرنا چاہ رہا تھا۔ان میں میرا نام بھی شامل تھا۔ جن جن صحافیوں کے خلاف پروگرام ہونا تھا اس میں سے اکثر نے ارشد شریف کو فون کیا یا کسی دوست سے کرایا۔ مجھے بھی اس پروگرام میں شرکت کی دعوت مل چکی تھی۔ باقی سب صحافیوں نے اس پروگرام میں شرکت سے انکار کر دیا لیکن میں نے کہا میں آجائوں گا۔میں نے کچھ غلط نہیں کیا تو مجھے کیا ضرورت ہے انکار کرنے کی۔جس دن پروگرام ہوناتھا اس سے ایک شام قبل ارشد شریف نے مجھے حیرانی سے کہا‘ کیا بات ہے پورے شہر نے مجھے فون کیا ہے کہ اپنے اینکر کو روکو‘اس پروگرام میں تمہارے خلاف بھی گفتگو ہونی ہے لیکن دو ہفتے ہوگئے ہیں تم نے مجھے ایک دفعہ بھی نہیں کہا۔میں مسکرا دیا۔ شاید عدیل راجہ کو ہماری وہ گفتگو اب تک یاد ہو۔میں نے کہا: ارشد دو تین باتیں ہیں۔ پہلی بات یہ کہ جتنا میں تمہیں جانتا ہوں‘ تم اس پروگرام کو نہیں روکو گے تاکہ بیوروچیف کے طور پر تمہاری پوزیشن کمپرومائز نہ ہو۔ تم ایک پروفیشنل بندے ہو اور اس معاملے میں تم کسی کا لحاظ نہیں کرتے۔ دوسرے‘ میں تمہاری دوستی کا کیوں ناجائز فائدہ اٹھائوں ۔ تیسرے ‘میرا خیال ہے میں نے کچھ غلط نہیں کیا اور میں اپنا دفاع کرسکتا ہوں۔اگر میں نے تم سے دوستی کو استعمال کر کے یہ پروگرام رکوانا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ میں نے کچھ غلط کیا ہے۔پھر وہ شو ہوا۔
اب بھی یہی کچھ ہوا تھا کہ میں نے ارشد کو چند دلائل دیے کہ اسے ڈاکٹر ظفر کی معذرت قبول کر لینی چاہئے اور اس سے پہلے کہ وہ تمہارے گھر آ کر معذرت کریں‘ وہ تم سے بڑے ہیں‘ بہتر ہے ان کے ہاں چلتے ہیں۔ میں نے کہا: یہ بھی ذہن میں رکھنا کہ انہوں نے مجھے نہیں کہا کہ میں تمہیں ان کے پاس لے آئوں‘ وہ تو مجھ سے کہہ رہے تھے کہ ارشد سے پوچھ لو اس کے گھر کب آئوں۔ارشد نے ایک لمحے سوچا اور بولا: چلو۔ میں ارشد کو ساتھ لے گیا تو ڈاکٹر صاحب بڑے خوش ہوئے۔ معذرت کرنے لگے تو ارشد شریف نے روک دیا کہ سر چھوڑیں رئوف نے بتا دیا تھا کہ آپ کو علم نہ تھا کہ آپ کا جو دوست ہمارے خلاف جس ایشو پر فون کرا رہا تھا اس نے آپ کو پوری بات نہ بتائی تھی۔ میرے لیے وہ دن خوشی کا تھا کہ میرے دو قریبی دوستوں کی غلط فہمی دور ہوئی ۔
ایک دفعہ 2017ء میں ارشد شریف کو کسی بڑے افسر کا دھمکی بھرا فون آیا کہ تم نواز شریف کے خلاف پانامہ سکینڈل پر ٹی وی پروگرام کرنا بند کرو ورنہ سنگین نتائج ہوں گے۔ ارشد شریف کو پیار سے ہینڈل کیا جاسکتا تھا‘ دھمکی سے نہیں۔ وہ مرسکتا تھا لیکن ایک دفعہ فیصلہ کر لیتا تو آپ اُسے جھکا نہیں سکتے تھے اور اب کی دفعہ اس نے وہی کر دکھایا۔خیر ارشد شریف نے اس افسر کے خلاف صبح سویرے اس کی تصویر لگا کر بڑے سخت ٹوئٹس کیے۔ پورے شہر میں ہلچل مچ گئی۔ آج تک کسی نے ایسی جرأت نہ کی تھی۔ ارشد شریف کے سب دوستوں نے اسے فون کر کے کہا‘ ٹوئٹس ڈیلیٹ کر دو لیکن وہ نہ مانا۔شام کو ہمارے ٹی وی دفتر میں میرے کولیگ نے پریشانی میں کہا‘ تم نے ارشد شریف کے ٹوئٹس پڑھے ہیں؟ میں نے لاپروائی سے کہا ‘جی صبح پڑھ لیے تھے۔ وہ دوست ناراض ہوا اور بولا: تم نے اسے منع نہیں کیا؟ کہنے لگا :میں نے اسے فون کیا تھا‘ میری اس نے بات نہیں مانی۔میں نے کہا: ارشد کو روکنا چاہئے؟ وہ دوست فکر مندی سے بولا: یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے۔ میں نے ارشد شریف کو فون ملا کر سپیکر آن کر دیا۔ میں نے کہا :بھائی جان یہ کیا تماشا لگایا ہوا ہے تم نے صبح سے۔ بس کافی ہوگیا‘ اب جانے دو۔وہ آگے سے ہنس کر بولا: اوکے باس۔ میرے اس کولیگ کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ بولا: پورا شہر اسے روک رہا تھا اس نے کسی کی نہیں سنی۔ تمہاری فورا ًمان لی۔میں نے کہا: آپ سب دوستوں نے ارشد شریف کے وہ ٹوئٹس ری ٹوئٹ کیے تھے؟ وہ بولے ہرگز نہیں۔میں نے کہا: میں نے صبح ہی کر دیے تھے۔ اس وقت ارشد شریف کے ٹوئٹس ری ٹوئٹ کرنے کی ضرورت تھی تاکہ اس کو خطرات کم ہوں۔ جتنے صحافی ری ٹوئٹ کریں گے‘ اس سے ارشد پر دبائو کم ہوگا۔میری بات اس نے اس لیے مان لی کیونکہ میں ری ٹوئٹس کر کے اس کے ساتھ اپنی وفاداری ثابت کر چکا ہوں۔ وہ ایک قدیم قبائلی جنگجو ہے۔ اب اسے پتا ہے جتنا خطرہ ان ٹوئٹس سے اسے ہے‘ اتنا مجھے بھی ہے۔ اب اس نے خود کو بھی بچانا ہے اور مجھے بھی۔ آپ لوگ اسے سمجھاتے رہے جو دوست کا کام ہوتا ہے لیکن آپ میں سے کسی نے وہ ٹوئٹس ری ٹوئٹ نہ کیے تھے جس وجہ سے اس نے آپ لوگوں کی بات نہیں مانی‘ لیکن میری بات مان لی ۔
اسلام آباد میں اب باہر نکلنا مشکل ہوگیا ہے کہ شہر کے ہر کونے میں چوبیس برسوں پر محیط ارشد شریف کی یادیں بکھری پڑی ہیں۔ اس سال دسمبر کچھ زیادہ ہی اداسی اور دکھ لے کر آیا ہے۔ پہلے صرف نعیم بھائی‘ رانا اعجاز محمود اور ڈاکٹر ظفر الطاف کا دکھ تھا اور اب تو اس میں ارشد شریف کا بہتا سرخ لہو بھی شامل ہوگیا ہے۔(بشکریہ دنیانیوز)