تحریر: رؤف کلاسرا۔۔
کبھی کبھار خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ زندگی کے کتنے اتارچڑھائو دیکھ لیے۔ کبھی مڑ کر دیکھیں تو حیرانی ہوتی ہے کہ کیا کیا قیامتیں گزر گئیں۔ کیا کیا موسم بدلے‘ انقلاب آتے دیکھے اپنی ذاتی زندگی میں اور اس معاشرے اور ملک میں ۔ کبھی سوچتا ہوں کہ ہم انسانوں میں اگر لچک اور بھولنے کی صلاحیت نہ ہوتی تو ہمارا کیا حشر ہوتا۔
ابھی لندن میں تھا تو یقین نہیں آرہا تھا کہ یہاں کبھی انور بیگ اور ارشد شریف کے ساتھ کتنی شامیں گزریں۔2006/07ء میں لندن میں ارشد شریف کچھ دن میرا روم میٹ بھی رہا۔ اکٹھے رپورٹنگ کرتے تھے۔ پورا ایک سال اکٹھے گزارا ۔ اکثر نواز شریف کے دفتر جانا ہوتا تھا تو جہاں باقی لوگ جمعہ کے روز لندن کے مشہور ریسٹورنٹ سے ریاض صاحب کا لایا کھانا کھا رہے ہوتے تھے تو وہ نیچے جا کر اپنی جیب سے نکال کر پیزا کھاتا تھا کہ سیاستدانوں کے دستر خوان سے فیض یاب نہ ہوا جائے۔ اگرچہ جلاوطن نواز شریف کرٹسی کا اظہار کرتے ہوئے اُس وقت وہاں موجود صحافیوں کی پلیٹوں میں خود کھانا پیش کرتے تھے۔ ہمارے استاد محترم ضیاالدین صاحب کی سب سے زیادہ عزت کی جاتی تھی۔ میں اور ارشد شریف تو اُن کے شاگرد تھے لہٰذا ان کی موجودگی میں ہمارے منہ سے بات تک نہ نکلتی کہ جو ایڈیٹر ہماری خبریں ٹھیک کرتے تھے ان کے سامنے کیا دانشوری فرمائیں۔ اس طرح انور بیگ کے ساتھ لندن میں کئی شامیں گزریں۔ ایک دفعہ تو بانڈ سٹریٹ سے ہائیڈ پارک سے گزرتے ہوئے کئی کلومیٹر کی واک کی تھی اور انہیں ارل کورٹ سٹیشن کے قریب ان کی رہائش گاہ کے قریب چھوڑ کر ٹرین پکڑ کر میں اپنی رہائش کی طرف لوٹ گیا تھا۔ ان سب دوستوں کی یادوں نے لندن کی شاموں کو مزید اداس کر دیا۔ پہلے ہمارے استادِ محترم ضیاالدین صاحب چل دیے‘ پھر ارشد شریف کے بے رحمانہ قتل نے تو زندگی کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ ارشد کے قاتل کبھی سکون نہیں پا سکیں گے۔ کبھی نہ کبھی کرما انہیں بھی اپنا شکار کرے گا۔ دو تین ماہ پہلے انور بیگ بھی چل بسے۔
لندن میں زیادہ تر یادیں ان دوستوں کے دم سے تھیں۔اس لیے ایجوائے روڈ اور آکسفورڈ سٹریٹ جانے کا حوصلہ نہیں ہوا کہ ان سب دوستوں کی یادیں وہاں بکھری پڑی ہیں۔ آپ لندن جائیں اور آکسفورڈ سٹریٹ اور ایجوائے روڈ نہ جائیں‘یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ میری بے ذوقی کہیں یا افسردگی کہ میں ان دونوں جگہوں پر نہیں گیا۔ ایجوائے روڈ پر 2007 ء میں ہر وقت آپ کو پاکستانی شناساچہرے ملتے تھے جہاں مرحوم وزیرداخلہ رحمن ملک کا فلیٹ تھا‘ جہاں بینظیر بھٹو موجود ہوتیں اور اس فلیٹ کے باہر میں نے بڑے بڑے پاکستانی سیاستدانوں کو گھنٹوں انتظار کرتے دیکھا‘ جو فلیٹ کا دروازہ کھلنے کا انتظار کرتے پائے جاتے تھے۔لندن کی ان سڑکوں پر ہر وقت رونق لگی رہتی تھی۔ نواز شریف اور بینظیر بھٹو لندن کو اپنا مسکن بنائے ہوئے تھے اور سارا سیاسی مرکز لندن بن گیا تھا۔ جوں جوں الیکشن قریب آرہے تھے لندن میں سیاسی سرگرمیاں بڑھ رہی تھیں۔ بینظیر بھٹو نے واپس لوٹنا تھا‘ وہ پرویز مشرف سے دبئی میں خفیہ ملاقاتیں کررہی تھیں۔ نواز شریف کا کیمپ بھی یہی چاہتا تھا کہ وہ مشرف سے کامیاب ڈیل کریں تاکہ ان کی واپسی کا راستہ بھی کھلے۔ہمارا خیال تھا کہ یہ سیاستدان اب میچور ہوگئے ہیں۔ سب نے سختیاں دیکھی تھیں‘ یہ سب لوگ کھاتے پیتے اور امیر لوگ تھے۔ یہ سب اس ملک کی ترقی کے لیے کچھ کریں گے۔ اس ملک نے انہیں بہت کچھ دیا‘ ان سب نے اپنی اپنی نسلوں اور خاندانوں کو سنوار دیا تھا‘ اب ان کی باری تھی کہ وہ ملک کو کچھ دیں گے۔ہم لوگوں پر یہ ثابت کرنے کیلئے ان سب نے مل کر چارٹر آف ڈیموکریسی بھی سائن کر لیا کہ اب اچھے بچے بن کرپاکستان پر حکومت کریں گے‘لیکن پھر بھی کچھ نہ بدلا۔ زرداری اینڈ کمپنی نے 2008ء میں اقتدار ملتے ہی وہیں سے کام شروع کیا جہاں وہ 1996ء میں چھوڑ کر گئے تھے۔ الٹا سود سمیت وصول کیا گیا۔اس دور میں نواز شریف اور شہباز شریف ملک کے وزیراعظم گیلانی اور صدر زرداری کے خلاف سپریم کورٹ سے عدالتی کمیشن بنوا لائے کہ میمو گیٹ پر ملکی سلامتی خطرے میں ڈال دی گئی تھی۔ لندن کا چارٹر آف ڈیموکریسی ہوا ہو گیا۔ آپ اُس دور کی نواز شریف اور شہباز شریف کی تقریریں سنیں تو آپ کو یقین نہیں آئے گا کہ یہ وہی لوگ تھے جو لندن سے لوٹنے کو بے چین تھے۔سب سے مزے کا کام نواز شریف نے کیا جب وہ تیسری بار وزیراعظم بنے تو آٹھ آٹھ ماہ اسمبلی نہیں جاتے تھے۔چھ چھ ماہ کابینہ اجلاس نہیں ہوتا تھا۔ وہ چار سو دن پاکستان سے باہر وزٹ پر رہے۔ بائیس دفعہ تو وزیراعظم بن کر لندن کا سفر کیا۔ اب وہ چوتھی دفعہ وزیراعظم بننے کے لیے بے چین ہیں۔ یہ وہی صورت ہے جو 2007 میں تھی۔ وہی لندن‘ مقدمات‘ ڈیلیں‘ جلاوطنی اور وہی پاکستان آ کر وزیراعظم بننے کا جنون۔ میں اکثر دوستوں کو کہتا ہوں کہ نواز شریف اگر چوتھی دفعہ وزیراعظم بن گئے تو بھی تین سال بعد پھر برطرف ہو کر جیل میں ہوں گے‘پھر وہاں سے لندن جائیں گے اور پھر وہاں دو تین سال بیٹھ کر دنیا بھر میں تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان لوٹنے کی کوشش کریں گے۔ جب تک زندگی ہے یہ سائیکل چلتا رہے گا۔
سب سے مزے کی بات یاد آئی۔ 2007 میں وکلا تحریک جوبن پر تھی۔ ایک دن عمران خان خود پاکستان سے نواز شریف سے ملنے کے لیے لندن تشریف لائے۔ میں بھی وہاں ڈیوک سٹریٹ میں دیگر صحافیوں کے ساتھ موجود تھا۔ نواز شریف اور دیگر لوگوں سے ملاقات کے بعد عمران خان نے نواز شریف ساتھ بیٹھ کر پریس کانفرنس کی۔ عمران خان نے بڑے زور شور سے میڈیا کو بتایا کہ وہ نواز شریف کو پاکستان واپس لوٹنے پر قائل کرنے آئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو لندن سے پاکستان آنا چاہئے۔ وہ دونوں مل کر پرویز مشرف کے خلاف سیاسی جدوجہد کریں گے۔ عمران خان نے نواز شریف کی موجودگی میں ہی ان کی پاکستانی واپسی کے لیے وہ دلائل دیے تھے جو خود نواز شریف اور ان کے حامیوں کے ذہن میں بھی نہیں تھے۔ لندن میں آل پارٹیز کانفرنس میں بھی وہ پیش پیش تھے۔ نواز شریف اور عمران خان میں دوستی اور محبت یہاں تک بڑھ گئی تھی کہ دونوں پارٹیاں ایک الائنس میں بدل گئی تھیں جس کی سربراہی کا کام محمود اچکزائی کے ذمے لگا تھا۔
عمران خان مشرف کی ڈکٹیٹرشپ کے خلاف نہیں تھے‘ اصل میں وہ مشرف سے سخت ناراض تھے کہ اس نے انہیں وعدہ کر کے وزیراعظم نہیں بنایا۔ مشرف نے گجرات کے چوہدریوں کو سب اختیارات دیے۔ چوہدری شجاعت حسین تک کو چالیس دن ہی سہی لیکن وزیراعظم تو بنا دیا اور پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ۔ عمران خان ان دنوں پارلیمنٹ کے کیفے میں چوہدری برادرز کی بینکوں سے کی گئی لوٹ مار کی دستاویزات ہم صحافیوں میں تقسیم کرتے تھے۔باقی چھوڑیں اس سے بڑا interesting time کیا ہوگا کہ سولہ برس بعد نواز شریف ایک دفعہ پھر مفرور کی حیثیت میں لندن میں بیٹھے پاکستان لوٹ کر وزیراعظم بننے کو پر تول رہے ہیں۔ عمران خان جو انہیں 2007ء میں پاکستان واپس لوٹنے پر قائل کرنے گئے تھے وہ اسی نواز شریف کے بھائی کی حکومت میں اُسی اٹک قلعہ جیل میں قید ہیں جہاں برسوں قبل مشرف دور میں نواز شریف قید تھے۔
اٹک قلعہ کے صرف قیدی بدلے ہیں۔اقتدار کا کھیل ہی ظالم ہے۔ کچھ عرصہ پہلے نواز شریف‘ وزیراعظم عمران خان کے دور میں قید تھے‘ آج شہباز شریف دور میں عمران خان قید ہیں۔صرف شاہی قیدی بدلتے رہتے ہیں‘اٹک قلعہ اور اس کی جیل نہیں بدلتی۔(بشکریہ دنیانیوز)۔۔