arshad shareef qatal nawaz shareef marium nawaz ke khilaaf taftesh

ارشدشریف قتل کیس میں نئے کردار کی انٹری؟؟

خصوصی رپورٹ۔۔

کینیا میں قتل ہونے والے ارشد شریف شہید کے کیس میں انویسٹی گیشن ٹیم کینیا میں موجود ہے مگر اب تک انہیں کیا معلومات حاصل ہوئی، ذرائع سے تفصیلات سامنے آگئیں ۔شہید ارشد شریف کےکیس میں اب تک کے اہم سوالات ہیں کہ ان کا لیپ ٹاپ اور موبائل کہاں ہیں ، خرم اور وقار کون ہیں  اور جو خرم  گاڑی کو چلا رہا تھا وہ کدھر گیا ، ارشد شریف کی گاڑی پر کن لوگوں نے فائرنگ کی ، فائرنگ کرنے والے اگر پولیس اہلکار تھے تو وہ کہاں ہے ۔ خرم اور وقار کے پاس کس شخصیت نے ارشد شریف کو بھیجا اور  کس کی کال پر ارشد شریف  ان کے ساتھ رہنے پر تیار ہوئے ۔ذرائع کے مطابق خرم اور وقار دو بھائی ہیں ،  دونوں کا  تعلق کراچی سے ہے ، خرم  کینیا کے شہر نیروبی اور وقار احمد دوسرے شہر میں رہتا ہے ، ان کا اپنا  فارم ہاؤس ہے اور شوٹنگ رینج ہے ۔ وقار کا حکومت کینیا سے کنٹریکٹ ہے کہ وہاں کی فورسز کو ٹریننگ دیتے ہیں ، اس دوران وقار اور ان سے متعلقہ افراد وہاں نہیں جا سکتے ۔  دو ماہ قبل ارشد شریف  دبئی سے کینیا آئے ، یہ بات غلط ہے کہ وہ آن آرائیول ویزے پر وہاں پہنچے بلکہ دبئی کی ایک شخصیت طارق نے  وقار کو کال کی اور اس نے کہا کہ ارشد نامی شخص مشکل میں ہے ، اگر کچھ دن کیلئے گھر رکھ لیں تو میں کینیا بھیج دیتا ہوں ۔  ان پر مشکل وقت ہے ، گزار دیں جس پر وقار نے ان کو سپونسر لیٹر بھیجا ، ان کے تمام ارائیول اور ویزے کے پراسس کو یقینی بناتے ہوئے ارشد کو اپنے پاس کینیا بلا لیا ، ارشد شریف نے دبئی سے فلائی کیا اور کینیا چلے گئے ۔وقار احمد نے تحقیقاتی ٹیم کو بتایا  کہ وہ نہیں جانتا تھا کہ  ارشد اتنا ہائی پروفائل بندہ ہے ، یہ لوگ مشکل میں  تھے   لہذا میں نے ان کی مدد کرنے کیلئے طارق سے حامی بھرلی،  تحقیقاتی ٹیم نے ابتدائی طور پر خرم سے متعلق پوچھاتو وقار نے  بتایا کہ خرم چھوٹابھائی ہے جو نیروبی میں رہتا تھا ، وہ وہاں سے اس فارم ہاؤس پر آیا جہاں ارشد شریف وقار احمد کی فیملی کے ساتھ رہ رہے تھے ، خرم نے فارم ہاؤس سے نیروبی جانا تھااور  ارشد نے بھی نکلنا تھا،  اس لئے وہ خرم کے ساتھ ہی نیروبی کیلئے نکل گئے ۔ ان کے لیپ ٹاپ ، موبائل ہر چیز گاڑی کی ڈگی میں رکھا تھا، خرم ڈرائیو کر رہا تھا ،ا رشد مسافر سیٹ پر بیٹھے تھے، یہ لوگ  رات آٹھ بجے   فارم ہاؤس سے نیروبی کیلئے نکلے ،فارم سے تقریبا بائیس کلو میٹر دور  واقعہ ہوا۔خرم نے تحقیقاتی ٹیم کو  بتایا کہ وہاں راستے پر چھوٹے چھوٹے پتھر پڑے تھے ،  مگر میں نے ان کو اگنور کردیا ، کچھ لوگ جھاڑیوں سے نکلے اور انہوں نے اندھا دھند فائرنگ کر دی ، کچھ گولیاں سامنے ، پیچھے اور دروازے کی سائیڈ سے  لگی ، ارشد شریف صاحب کو دو گولیاں لگیں ، ایک فائر سائیڈ سےلگا اور ایک پیچھے سے لگا ۔ خرم نے کہا میں انتہائی خوفزدہ ہو گیا اور گاڑی تیز بھگا دی ، مسافر سیٹ پر دیکھا تو ارشد شریف کا خون نہیں  رک رہا تھا ۔میں نے وقار کو بتایا کہ ہم پر حملہ ہو گیا جس پر وقار نے کہا کہ واپس آجاؤ ، میں نے کہا کہ میں واپس  نہیں آ سکتا ، لگ رہا ہے کہ وہ لوگ ابھی بھی تعاقب میں ہیں ۔   میں پٹرول پمپ پر گاڑی روک لیتا ہوں۔وقار کہتا ہے خرم   گاڑی لے کر پمپ پر پہنچا تو وہاں کی سی آئی ڈی  کو کال کی ، جب پٹرول پمپ پر پہنچا تو ارشد شریف موجود  تھا مگر خرم نہیں تھا ، خرم نے بتایا کہ میں گاڑی  سے اتر کر ایک کمرے میں چھپ  گیا، ڈر تھا کہ تعاقب کرتے لوگ ارشد پر فائرنگ کریں گےا ور مجھے بھی مار دیں گے  ۔ اس لئے میں وہاں ہی چھپ گیا۔ وقار  نے آکر ارشد شریف کی تصویر لی ۔ اتنی دیرمیں پولیس آگئی ۔ تو خرم نے لیپ ٹاپ اور موبائل وہ تمام تر چیزیں کینیا کی پولیس کے حوالے کر دیں اور ماجرہ بتایا ۔وقار نے تفتیشی ٹیم کو کہا کہ ایک لمحے کیلئے سوچیں کہ ایک شخص دو ماہ سے ہمارے گھر  پر رہ رہا تھا ، ہم نے اسے مارنا ہوتا تو آسانی سے مار دیتے اور ثبوت بھی مٹا دیتے ۔  سب سے اہم بات کہ اپنے بھائی خرم کو ارشد کے ساتھ نیروبی اپنے فارم ہاؤس سے بھیج رہا ہوں، اگر ہم نے حملہ کیا ہوتا تو   گولی میرے بھائی کو بھی لگ سکتی تھی ۔ ارشد کے موبائل اور لیپ ٹاپ کینیا پولیس کے پاس موجود ہیں ۔پولیس نے اپنی انویسٹی گیشن  کی تو علم ہو اکہ فائرنگ کرنے والے لوگ کینیا کی پولیس تھی ۔ کینیا کی پولیس کو کس نے بتایا کہ ارشد شریف آرہے ہیں اور ان پر فائرنگ کھول دو ۔ماضی میں کہا جاتا کہ ایک اغواء کار گاڑی ہے جس میں ایک بچہ تھا ، پولیس نے ناکہ بندی کر رہے تھے ، گاڑی کو روکا اور غلط شناخت پر ارشد شریف کو قتل کر دیا ، اس میں کچھ سوالات اور ابہام ہیں۔ارشد شریف پاکستانی ہیں ، وہ افریقی نہیں ،  ان کے چہرے کی شناخت وہاں کسی سے ملتی جلتی نہیں تھی ، خرم کا کہنا تھا کہ  مجھے نہیں پتہ کہ پولیس کے لوگ ہیں ۔ وہاں کرائم زیادہ ہوتا ہے اس لئے میں نے گاڑی کو روکنا مناسب نہیں سمجھا، ایک فائر ٹائر پر لگا اور میں نے گاڑی بھگا دی ۔ذرائع کے مطابق خرم اور قار سے کی جانے والے تفتیش سے لگتا ہے کہ ان کا قتل سے تعلق نہیں، ان کا تعلق کراچی سے ہے ، وقار نے یہ بھی بتایا کہ ہمارے اہلخانہ  بھی اس بات پر کافی غصہ ہوئے کہ  اگر اپ کو علم تھا کہ اس کے پاکستان میں معاملات خراب چل رہےہیں تو انہیں پناہ نہیں دینی چاہئے تھے ۔ مجھے علم نہ تھا کہ ارشد صاحب کی کیا پروفائل ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ  طارق نامی شخص کون ہے ، اس  طارق نے  وقار اور خرم کو کیوں کال کی ، دبئی سے کینیا کیوں بھیجا گیا ، اس کیس کی گھتیاں  سلجھتی جا رہی ہیں  جبکہ ہر معاملے میں  تحقیقات ہونا لازمی ہے ۔

دوسری طرف سینیئر صحافی و اینکر پرسن ارشد شریف قتل کیس میں پاکستان سے بھیجی گئی تحقیقاتی ٹیم نے کینین پولیس چیف و حکام سے ملاقات کی ہے۔ یکسپریس نیوزکے مطابق ڈائریکٹر ایف آئی اے اکیڈمی اطہر وحید اور ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جینس بیورو عمر شاہد حامد پر مشتمل ٹیم کینیا میں ارشد شریف قتل کیس کے حوالے سے حقائق کا تعین کرنے کے لیے تحقیقات میں مصروف ہے، پاکستانی ٹیم کی کینیا کے قائم مقام آئی جی پولیس و حکام سے پاکستان ہائی کمیشن میں ملاقات ہوئی ، اس موقع پر کینیا میں پاکستان کی ہائی کمشنر سیدہ ثقلین بھی موجود تھیں۔واضح رہے کہ کینیا میں ارشد شریف کو رہائش وغیرہ کی سہولیات فراہم کرنے والے دو بھائیوں وقار و خرم نے تحقیقاتی ٹیم کو بتایا تھا کہ ارشد شریف کا موبائل فون و آئی پیڈ وغیرہ کینین پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے ،ذرائع کے مطابق پاکستانی ٹیم نے کینین پولیس چیف سے کینیا میں اب تک ہونے والی تحقیقات پر بھی معلومات لیں، ملاقات کے موقع پر کینین پولیس چیف نے پاکستانی تفتیش کاروں کو سوینیئر بھی دیا۔۔(خصوصی رپورٹ)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں