سینئرصحافی اور اینکرپرسن حامد میر کا کہنا ہے کہ ۔۔جنرل فیض حمیدکے ساتھ میرا کوئی ذاتی عناد نہیںتھا اور نہ کوئی جائیداد کا جھگڑا۔ 2017ء میں وہ آئی ایس آئی کے ڈی جی کائونٹر انٹیلی جینس بنے تو سب سے پہلے ہمارے صحافی دوست ارشد شریف نے نام لے کر سوشل میڈیا پر ان کوچیلنج کیا تو پتہ چلا کہ موصوف نے اپنی جیب میں بہت سے سیاستدان اور صحافی ڈال رکھے ہیں۔ آج کل تو کچھ ایسے صحافی بھی ناقدینِ جنرل فیض میں شامل نظر آتے ہیں جو موصوف کی خوشنودی کیلئے انتہائی مشکل وقت میں مجھ جیسے کمزور صحافی پر بار بار حملہ آور ہوتےتھے۔روزنامہ جنگ میں اپنے تازہ کالم میں وہ لکھتے ہیں کہ مئی 2021ء سے مارچ 2022ء تک مجھ پر پاکستان کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے دروازے بند تھے۔ پابندی کے اس دور میں جب گیارہ جنوری 2022ء کو میں نے واشنگٹن پوسٹ میںلکھا کہ 2022ء عمران خان کیلئے ڈرائونا خواب بننے والا ہے تو فیض حمید نے اس وقت کی حکومت کے مخالف کئی صحافیوں سے یہ لکھوا لیا کہ عمران خان کی حکومت پانچ سال پورے کرے گی۔ فیض صاحب کے انہی کمالات کا سراغ لگاتے لگاتے میں سیاست و صحافت کے کچھ ایسے چہروں کو پہچان گیا جو بظاہر عمران خان کےتو شدید مخالفت تھے لیکن ان کا ریموٹ کنٹرول فیض حمید کےپاس تھا۔ اگر فیض حمید کا کچا چٹھا سامنے آگیا تو بہت سے عمران خان کے مخالف نام نہاد جمہوریت پسند بھی بے نقاب ہو سکتے ہیں اسلئے ان جمہوریت پسندوں کی کوشش ہے کہ فیض حمید کی بطور ڈی جی آئی ایس آئی ملازمت کے دور میں سرگرمیوں کی زیادہ چھان بین نہ ہو۔ یاد رکھئے گا احتساب تو پورے کا پورا کرنا پڑے گا وگرنہ جو فیض کو بچانے کی کوشش کرے گا وہ بھی سوئے دار تک پہنچے گا۔