afwah saazi baqaida sanat ban chuuki hai

ارشد شریف کیس

تحریر: جویریہ صدیق۔۔

جب بھی کوئی شخص قتل ہوتا ہے تو اس کے قتل کو بجا طور پر پوری انسانیت کا قتل قرار دیا جاتا ہے۔ کسی بھی انسان کے پاس سب سے قیمتی چیز اس کی زندگی ہی ہوتی ہے اور کسی دوسرے انسان کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی انسان کو قتل کر کے اس سے جینے کا حق چھین لے۔ مگر تاریخِ انسانی کی ابتدا‘ ہابیل قابیل کے زمانے سے یہ قبیح و سنگین جرم معاشرے میں چلا آ رہا ہے۔ قتل‘ دشمنی‘ فسادات اور جنگیں آج تک نہیں رک سکیں۔ انسان ایک دوسرے سے حسد کرتے ہیں‘ ان کے خلاف سازشیں کرتے ہیں‘ ان سے مخاصمت پر اتر آتے ہیں اور پھر بات اپنے مدمقابل کو قتل کرنے پر آ جاتی ہے۔ لازم نہیں کہ سامنے والا جانی دشمن ہی ہو‘ اکثر کسی مظلوم کو بھی قتل کر دیا جاتا ہے۔ خونِ ناحق کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ چھپ نہیں سکتا۔

ارشد شریف شہید قتل کیس میں  تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ ارشد شریف پاکستان کے معروف اینکر اور تحقیقاتی صحافی تھے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہر دل عزیز۔ پاکستان کا بیٹا ارشد شریف گزشتہ برس اس وقت ملک چھوڑنے پر مجبور ہوا جب اس پر سولہ کے قریب جھوٹے مقدمے بنا دیے گئے۔ وہ اپنی دھرتی نہیں چھوڑنا چاہتا تھا مگر اسے مجبور کر دیا گیا۔ ارشد موت سے نہیں ڈرتا تھا لیکن اس سلوک سے ضرور خائف تھا جو اس وقت کے اسیران کے ساتھ ہو رہا تھا۔ وہ متحدہ عرب امارات گئے لیکن انہیں وہاں سے بھی نکلوا دیا گیا۔ ارشد کے پاس اس وقت کسی ملک کا ویزا نہیں تھا‘ اس لیے انہیں کینیا جیسے غیر محفوظ ملک میں جانا پڑا کیونکہ وہاں پر پاکستانیوں کو آرائیول پر ویزا مل جاتا ہے مگر اب تمام حالات کو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ ایک سازش کے تحت ان کو مقتل گاہ میں لے جایا گیا تھا۔ جو کام پاکستان میں نہیں ہو سکتا تھا‘ وہ غیر ملک میں کروایا گیا۔

اب عالم یہ ہے کہ جس کسی سے بھی انصاف کے لیے کہو وہ یہ کہہ کر بری الذمہ ہو جاتا ہے کہ قتل تو کینیا میں ہوا ہے‘ ہم کیا کر سکتے ہیں۔ سارہ شریف کا قتل بھی برطانیہ میں ہوا تھا اور قاتل پاکستان آ گئے تھے مگر برطانیہ ان کو پاکستان میں گرفتار کرانے اور واپس لے جا کر کیس چلانے میں کامیاب ہو گیا تاکہ ان کو سزا دی جا سکے۔ ان کے کیس کی کارروائی ایک ماہ میں ہی شروع ہوگئی ہے اور سارہ کے مبینہ قاتل اس وقت جیل میں ہیں جبکہ ارشد شریف کا قتل گزشتہ برس اکتوبر میں ہوا تھا اور ان کا کوئی قاتل نہ تو پاکستان اور نہ ہی کینیا میں گرفتار ہوا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ کیونکہ پی ڈی ایم کی حکومت کی اس کیس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس لیے انہوں نے ارشد شریف اور ان کے اہلِ خانہ کو انصاف دلانے میں دلچسپی نہیں دکھائی۔ خطوط لکھنے کے باوجود نہ صدرِ پاکستان اور نہ ہی کینیا کے صدر نے مجھے کوئی جواب دیا۔ کیا ایک ایٹمی ملک کینیا سے ان لوگوں کی حوالگی کا مطالبہ نہیں کر سکتا جو پاکستان کے نامور اینکر پرسن کے قتل میں ملوث ہیں؟ مجھے اس خبر سے بہت رنج پہنچا کہ ان پانچ پولیس والوں کو نوکری پر ترقی کے ساتھ بحال کر دیا گیا ہے جو ارشد کے قتل میں ملوث ہیں۔ ان پر کوئی انکوائری نہیں ہوئی‘ ان کو کوئی سزا نہیں ملی۔ پاکستان اپنے شہری کے انصاف کے لیے آواز کیوں نہیں بلند کرتا؟ حکومت اب تک کیوں چپ ہے؟ آخر ایسی کیا مجبوری ہے؟ کینیا کوئی سپرپاور تو ہے نہیں یا کوئی عالمی مالیاتی ادارہ‘ جس کے خلاف کوئی بیان دینے سے پہلے سو بار سوچنا پڑے۔ ارشد شریف کوئی عام انسان نہیں تھا، وہ اس ملک کا معروف صحافی اور نامور اینکر تھا۔ اگر برطانیہ اپنی دس سالہ بچی کے قاتلوں کو پاکستان سے گرفتار کروا سکتا ہے تو پاکستان کینیا میں اپنے ایک معزز شہری‘ جو ایک معروف صحافی تھا‘ کے قاتلوں کو گرفتار کیوں نہیں کرا سکتا؟ پاکستان کو یہ مقدمہ عالمی عدالت انصاف میں لے کر جانا چاہیے تھا مگر افسوس! ایسا کچھ نہیں ہوا۔ آج بھی میں پاکستان اور کینیا‘ دونوں جگہوں پر انصاف کی منتظر ہوں۔ اب کینیا میں بھی میں نے وکیل اور قانونی معاونت کا اہتمام کر لیا ہے۔ جو کام حکومت کو کرنا چاہیے تھا‘ وہ مجھ بیوہ کو خود کرنا پڑ رہا ہے۔ قانونی لڑائی بہت تکلیف دہ ہوتی ہے۔ مجھے نظام انصاف نے بہت مایوس کیا ہے۔ کاش کہ شہریوں کی جان و مال کا تحفظ ہو، ان کو فوری طور پر انصاف ملے۔ گو کہ دور دور تک اس کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔ ارشد شریف کے پاس کسی اور ملک میں جائیداد، اثاثے اور شہریت نہیں تھی۔ وہ صرف پاکستان کی آواز تھا۔ کیا اسے انصاف دلانے کے لیے پاکستان اس کی آواز بنے گا؟ اگر ارشد کو انصاف نہ ملا تو یہ سلسلہ یہاں رکے گا نہیں اور قاتل صاف بچ کر نکل جائیں گے کیونکہ پہلے بھی کسی مقتول کو انصاف نہیں ملا۔(بشکریہ دنیانیوز)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں