arshad chaudhary muskurana dost kahan gum hogya

ارشد وحید چودھری،مسکراتا دوست کہاں گم ہو گیا۔

تحریر: سہیل دانش

برادرم ارشد وحید چودھری سے میری پہلی ملاقات 2009میں اس تقریب میں ہوئی جہاں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے ملک بھر سے ایڈیٹرز، سینئرز صحافیوں کو ملکی صورت حال پر تبادلہ کے لئے مدعو کیا ہوا تھا۔ جناب قمر زمان کائرہ نے ان سے اپنے شستہ اور میٹھے انداز میں تعارف کراتے ہوئے کہا! یہ اسلام آباد کی پہچان ہیں۔ پھر یہ عجیب اتفاق رہا کہ اسی رات ارشد چودھری سے دوبارہ ایک عشایئے میں ملاقات ہو گئی جس کے میزبان محترم ہارون رشید تھے۔ یہ بھی حسن اتفاق تھا کہ برادرم سلیم صافی سے بھی میری پہلی ملاقات اسی دن ہوئی۔ یہ ملاقات اسلام آباد ہوٹل (جہاں ہم ٹھہرے ہوئے تھے)کے سامنے جماعت اسلامی کے دفتر میں ہوئی۔ وہاں سب دوست محترم قاضی حسین احمد سے ملاقات کے لئے جمع تھے اور وہیں قاضی صاحب نے بتایا کہ سلیم صافی”جیو“ ٹیلی ویژن جوائن کر رہے ہیں۔ سلیم صافی واقعی افغانستان کے واقعات اور معلومات کے حوالے سے انسائیکلو پیڈیا کا درجہ رکھتے ہیں۔اسلام آباد کے بلیو ایریا کے ہوٹل میں عشایئے کے دوران جہاں میزبان محترم ہارون رشید نے اسلام آباد میں اقتدار کے ایوانوں کے کچھ راز و نیاز سنائے۔ یہ تو ہم سب کو معلوم ہی تھا کہ جنرل کیانی سے ان کے محبتوں کے رشتے ہیں، وہاں ارشد چودھری نے بھی پیش آنے والے کچھ واقعات کی نشاندہی کرکے سب کو چونکا دیا۔ اس محفل میں ہمارے ہر دل عزیز سجاد میر اور برادرم جاوید چودھری بھی موجود  تھے۔ الغرض کافی دیر گپ شپ رہی اس محفل میں ارشد وحید چودھری کی باتیں دل چسپ، معلوماتی اور پر مزاح تھیں، کھانے کی میز سے اٹھنے تک یہ شناسائی دوستی میں بدل چکی تھی۔

اس وقت مَیں ”دن“ میڈیا گروپ میں گروپ ایڈیٹر کے طور پر ذمہ داری نبھارہا تھا، اس لئے میں نے ارشد وحید چودھری کولاہور آنے کی دعوت دے ڈالی، کیونکہ سچ پوچھیں تو وہ ایک نظر میں بہت اچھے لگے تھے۔ پھر ہماری کئی ملاقاتیں رہیں اور ٹیلی فونک رابطے بھی رہے۔ آج خبر ملی کہ وہ ہم میں نہیں رہے، یہ خبر میرے لئے ناقابل یقین تھی۔ وہ کئی دن سے علیل تھے مگرمجھے علم نہ ہو سکا۔ معلوم ہوا کہ گذشتہ دنوں برادرم ارشد وحید میں کرونا کی تشخیص ہوئی تھی۔ جس کے بعد سے وہ اسلام آباد کے مقامی ہسپتال میں زیر علاج رہے مگر دوران علاج طبیعت ذیادہ بگڑنے پر انہیں وینٹی لیٹر پر منتقل کیا گیا، جہاں وہ دار فانی سے کوچ کر گئے۔

 سچی بات تو یہ ہے کہ ارشد وحید دوستوں کے دوست تھے اور اپنے ساتھیوں میں بڑے مقبول تھے۔ جب وہ بات کرتے تو سننے والے کی طبیعت میں بشاشت آ جاتی۔ بحیثیت پروگرام ہوسٹ ارشد وحید چودھری کے سوالات اور گفتگو میں کسی طنز اور پھبتی کے بجائے مٹھاس ہوتی تھی۔ انکی یہ خاصیت تھی کہ سچی باتیں اور جھانکتے حقائق ہلکے پھلکے انداز میں کہہ جاتے تھے۔ بہت باخبر صحافی تھے لیکن مکمل تصدیق کئے بغیر کبھی کسی خبر پر تبصرہ نہ کرتے تھے۔ مجھے ان کی نرم، میٹھی مسکراہٹ اور کھلی عمیق آنکھیں ہمیشہ یاد رہیں گی۔ ان کی نفاست اور وضعداری شخصیت کا اجلا رنگ تھا۔اُن میں علم اور حلم کی خوبیاں تھیں۔ ان کے ساتھ تعلق کا میرے لئے پہلا ورق ان کی مسکراہٹ اور دل موہ لینے والی گفتگو تھی۔ ان کے حوالے سے آخری ورق وہ خبر ہے ،  جس نے تمام دوستوں کو رلا دیا ہے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ اس پیارے انسان اور شاندار دوست کے ساتھ رحم و کرم کا معاملہ فرمائے۔ آمین۔۔(سہیل دانش)۔۔

انسٹاگرام  اب فیس بک جیسا فیچر متعارف کرائے گا۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں