کونسل آف پاکستان نیوزپیپرایڈیٹرز(سی پی این ای ) نے گزشتہ روز ایوان اقبال لاہورمیں ممتازصحافی،ایڈیٹراورصدرسی پی این ای عارف نظامی کی یاد میں تعزیتی ریفرنس کے شرکاء نے کہا کہ عارف نظامی بہترین رپورٹر، ایڈیٹر، کالم نگاراورتجزیہ کارتھے، وہ بڑے باپ کے بڑے بیٹے تھے لیکن صحافتی میدان میں انہوں نے اپنی محنت اورصلاحتیوں سے نام پیداکیا، عارف نظامی کی وفات سےپاکستان ایک بہت بڑے صحافی سے محروم ہوگیا ہے، انہوں نے ہمیشہ حالات واقعات کے مطابق حکومت اور اپوزیشن دونوں پر تنقید کی، وہ خبرکے معاملے پرکمپرومائزنہیں کرتے تھے۔ تعزیتی ریفرنس میں سینئر صحافی مجیب الرحمنٰ شامی، ایازخان، ارشاد احمد عارف ، محمدامین حیدر، احمد ولید، سلمان غنی، سردارخان نیازی، کاظم خان،امتیازعالم، جمیل اطہر، جبارخٹک،علی احمد ڈھلوں ،اوریامقبول جان، ارشدانصاری، اوریامقبول جان سمیت کئی سینئرصحافیوں، تجزیہ نگاروں اورشعبہ صحافت سے وابستہ شخصیات اور عارف نظامی کے صاحبزادوں یوسف نظامی اوراسد نظامی نے شرکت کی۔گورنرپنجاب چوہدری محمدسرورنے اپنے خطاب میں کہا کہ خبرعارف نظامی کی تلاش میں رہتی تھی۔ انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے اور وزیراعظم عمران خان کی شادی کی خبرسمیت کئی اہم خبریں بریک کیں، وہ جب خبردیتے توپھرکسی دباؤمیں نہیں آتے تھے۔ عارف نظامی ایک لبرل، مثبت سوچ رکھنے والے کہنہ مشق صحافی تھے،انہوں نے ہمیشہ حالات و واقعات کے مطابق حکومت اور اپوزیشن دونوں پر تنقید کی،وہ ایک وضعدار صحافی تھے۔گورنرنے کہا عارف نظامی ایک بڑے باپ کے بیٹے تھے مگر انہوں نے اپنا نام اپنی محنت سے بنایا۔ وہ ایسے صحافیوں کے لئے ایک رول ماڈل ہیں جومثبت صحافت کرتے ہیں، عارف نظامی ایک تحقیقاتی صحافی تھے۔ چوہدری محمدسرور نے ہمسایہ ملک بھارت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کواس وقت اپنے ملک کی نہیں بلکہ یہ فکرزیادہ ہے کہ پاکستان کو نقصان کیسے پہنچایا جائے، افغانستان میں بھارتی ایجنسیاں پاکستان مخالف کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں، انہوں نے کہا بھارتی لابی اس وقت یورپی یونین میں پاکستان کا جی ایس پی پلس سٹیٹس ختم کروانے میں مصروف ہے لیکن بھارت کا یہ خواب چکناچورہوگا ۔پیپلزپارٹی کے رہنماچوہدری اعتزازاحسن نے کہا عارف نظامی کی رحلت قومی سانحہ سے بڑھ کرمیرے لیے ذاتی طور بہت بڑا نقصان ہے۔عارف نظامی بہترین دوست تھے مگر خبر پرکمپرومائز نہیں کرتے تھے،عارف نظامی بہترین رپورٹر،ایڈیٹر،کالم نویس اورتجزیہ کار تھے، وہ اکثر سخت سوالات پوچھتے تھے،کئی بار محترمہ بے نظیر بھٹو سے بھی سخت سوالات کرجاتے تھے،وہ مجھے کہتیں کہ آج آپ کے دوست کوکیاہوگیا؟۔ عارف نظامی خوش لباس اور خوش زبان تھے، وہ ایک نڈرشخص تھے،وہ کسی سے خوفزدہ نہیں ہوتے تھے۔مارشل لادورمیں جب خبریں سنسرہوتی تھیں توعارف نظامی کی تجویزپرنوائے وقت نے اس وقت سنسرکی گئی خبروں کی جگہ خالی چھوڑکراخبارشائع کرنے کامنفردطریقہ اپنایا۔ وہ اپنے رپورٹرز ،سب ایڈیٹرز سب کی سپورٹ کرتے تھے ۔اعتزازاحسن نے کہا ایسے وقت میں جب ایک طرف مودی حکومت پاکستان کیخلاف سازشیں کررہی ہے اوردوسری طرف افغانستان کے مسائل ہمیں اپنی طرف کھینچ رہے ہیں ،ہمیں عارف نظامی جیسی صحافتی شخصیات کی ضرورت ہے،ایک ایسے سیٹی بجانے والے کی ضرورت ہے جس کی ایک سیٹی پرسب کھیل رک جائے اوراس کے مشورے کے بعد دوسری سیٹی پرکھیل شروع ہوجائے ۔ایازخان نے کہا عارف نظامی ایک عہد تھاجوتمام ہوا،بہت کم لوگ ایسے ہیں جوبیک وقت بہترین رپورٹر،ایڈیٹر،کالم نویس اورتجزیہ کارہوتے ہیں، وہ بیک وقت اردواورانگلش دوزبانوں میں لکھتے تھے، یہ ایک مشکل کام تھا مگرعارف نظامی نے بڑی کامیابی سے لکھا۔ ان کے ساتھ کام کرتے ہوئے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا،وہ سب کوعزت اوراحترام دیتے تھے۔ صحافت میں ایک رول ماڈل ہیں۔عارف نظامی میں حس مزاح بہت زیادہ تھی، وہ سی پی این ای کے دوستوں کومختلف ناموں سے پکارتے تھے۔ایک ملنساراورمحبت کرنیوالے انسان تھے جن کی کمی ہمیشہ محسوس کی جائیگی۔ا رشاداحمدعارف نے کہا عارف نظامی بڑے باپ کابڑابیٹاتھا،انہوں نے اپنی صلاحتیوں سے اپنانام اورمقام بنایا، مجھےعارف نظامی کے ساتھ 37 سال کام کرنے کا موقع ملا،وہ اپنی اوردوسروں کی عزت کرنے والے انسان تھے۔تعلقات نبھانے والے شخص تھے۔ بطورصحافی انہوں نے ہمیشہ صحافتی اخلاقیات کومدنظررکھا۔ 1997 میں جب محترمہ بے نظیربھٹوکی حکومت ان کے اپنے ہی صدرختم کرنے والے تھے تویہ خبرعارف نظامی صاحب کوپہلے ہی مل گئی لیکن جن ذرائع نے انہیں یہ خبربتائی انہوں نے اسے قبل ازوقت شائع نہ کرنے کی درخواست بھی کی جس پرعارف نظامی نے یہ خبرنہیں دی تھی، اسی طرح جنرل حمید گل کوآئی ایس آئی کی سربراہی سے ہٹانے کی خبربھی انہیں پہلے مل گئی تھی۔ عارف نظامی کاموقف تھا کہ خبرمیچورہونی چاہئے،اس کی تصدیق ہونی چاہئے اورپھراس خبرکے ردعمل کاسامناکرنے کی جرات ہونی چاہیے۔ان کے کئی سیاسی ،مذہبی جماعتوں کے سربراہان سے تعلقات تھے مگروہ ان کے خلاف خبروں کےبارےمیں کمپرومائزنہیں کرتے تھے سینئرصحافی مجیب الرحمنٰ شامی نے کہا عارف نظامی کی وفات ایک قومی سانحہ ہے،دائیں اوربائیں بازووالے دونوں انہیں اپناسمجھتے تھے۔انہوں نے کبھی اپنی ذاتی پسنداورناپسندکوصحافت کے آڑے نہیں آنے دیا، ان کے آئیڈیل ان کے والد حمیدنظامی مرحوم تھے۔ عارف نظامی کہتے تھے بہترین رپورٹروہ ہے جوباخبرہو،باعلم ہواورباکردارہو،خبرشائع ہونے کے بعد وہ کسی دباؤکوقبول نہیں کرتے تھے۔
