تحریر: عطاالحق قاسمی۔۔
عارف نظامی کی رُحلت کی اچانک خبر شدید صدمے کا باعث بنی، وہ ٹی وی پر علیل تو دکھائی دیتے تھے، اُن کی آواز میں بھی لرزش تھی مگر وہ کب اسپتال میں داخل ہوئے اور کب وہ وینٹی لیٹر پر گئے، اِس کی خبر مجھ تک نہ پہنچ سکی۔ اِسی طرح ان کی تدفین بھی فوری عمل میں لائی گئی۔ عارف نظامی کی وفات صرف اُن کے خاندان ہی کیلئے صدمے کا باعث نہیں بلکہ اُن کے دوستوں کیلئے بھی بہت کربناک تھی۔۔
عارف نظامی میرے دوستوں میں سے تھے۔ جب میں نوائے وقت میں کالم لکھتا تھا، اُس وقت بھی عارف صاحب سے دوستانہ تعلقات تھے بلکہ میرے محسن مجید نظامی بھی اپنے دفتر میں ملاقات کے دوران بہت بےتکلف اور دوستانہ ماحول میں گپ شپ کرتے تھے۔ جب میں نے بوجوہ نوائے وقت سے علیحدگی اختیار کی تو جہاں مجید صاحب نے مجھے واپس لانے کے لئے مختلف ذرائع استعمال کئے، وہاں عارف صاحب نے بھی ایک دن مال روڈ کے ایک ہوٹل میں مجھ سے ملاقات کی اور دوبارہ نوائے وقت جوائن کرنے کے لئے کہا۔ میں نے کہا برادر، میں نے نہ تو زیادہ پیسوں کے لئے جنگ جوائن کیا اور نہ زیادہ پیسوں کے لئے واپس نوائے وقت جائوں گا۔ انہوں نے پوچھا کیا مستقبل قریب میں آپ اپنے فیصلے پر نظرثانی کر سکیں گے؟ میں نے ’’نہیں‘‘ کہا اور عارف صاحب بولے ’’ٹھیک ہے انسان کو اپنے ضمیر کے مطابق ہی فیصلہ کرنا چاہئے۔۔
عارف نظامی دوستوں کی محفل میں بھرپور قہقہے بھی لگاتے تھے مگر عام ملاقاتیوں کے ساتھ لئے دیے رہتے تھے۔ میں جب کبھی دوستوں کو اپنے ہاں مدعو کرتا، عارف صاحب اس میں کبھی آتے اور کبھی نہ آ سکنے کی اطلاع فون پر دیتے۔ ان کے سیاسی تجزیے بہت حد تک متوازن ہوتے تھے، باقی اگر یہ کہا جائے کہ ان کا جھکاؤ کسی سیاسی جماعت کی طرف نہیں تھا، تو یہ جھوٹ ہو گا کیونکہ ایسا ممکن ہی نہیں کہ کوئی دانشور اپنی ذاتی رائے نہ رکھتا ہو۔ عارف صاحب ترقی پسند ذہن کے حامل تھے۔ انہوں نے ڈیلی ’’دی نیشن‘‘ کی ادارت کے فرائض طویل عرصہ تک انجام دیے اور ان کے نظریات کی جھلک اخبار کے اداریوں اور ٹی وی کے تجزیوں میں دیکھی جا سکتی تھی، وہ حمید نظامی کے صاحبزادے اور مجید نظامی کے بھتیجے تھے چنانچہ انہیں ان کی فکری پاسداری کا خیال بھی رہتا تھا۔ یہاں میر شکیل الرحمٰن کا ذکر بھی کرنا چاہوں گا، مجھے عارف صاحب نے بتایا کہ جب نوائے وقت کے حوالے سے وہ ایک بحران کا سامنا کر رہے تھے، تو ان دنوں میر صاحب نے پوری نیک نیتی سے انہیں کچھ ایسی پیشکشیں کیں، جن سے عام انسان انکار نہیں کر سکتا تھا، مگر عارف صاحب نے شکریے کے ساتھ نہ صرف انکار کر دیا بلکہ ان کے اس بڑے پن کا ذکر بھی متعدد بار کیا۔ عارف صاحب سے میری دلی وابستگی کل بھی قائم تھی اور اداسی کے عالم میں آج بھی برقرار ہے۔ ایک دفعہ وہ کار کے حادثے میں شدید زخمی ہو گئے، ان کے جسم سے اتنا خون بہہ گیا کہ انہیں خون لگانا پڑ گیا، چنانچہ میں نے بھی اپنا خون عطیہ کیا۔ اس وقت تو اللہ نے نئی زندگی سے ہمکنار کیا مگر اس بار وہی ہوا جو خدا کو منظور تھا۔ ان کے بھائی شعیب نظامی اور ڈاکٹر طاہر نظامی کے علاوہ ان کی اہلیہ اور تین بیٹوں کے لئے صبر کی دعا کے ساتھ مرحوم کے لئے دعائے مغفرت! ہم سب نے ایک نہ ایک دن اپنے بچھڑے ہوئے پیاروں کا ہم سفر ہونا ہے اور کسی ایسی جگہ دوبارہ ملنا ہے جہاں یہ سب ایک ساتھ موجود ہیں۔۔(بشکریہ جنگ)۔۔