بی بی سی رپورٹ
گذشتہ چند دنوں سے پاکستانی سوشل میڈیا پر پاکستان کے ایک نجی چینل جیو نیوز کے لاہور میں تعینات کرائم رپورٹر احمد فراز پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ جیو نیوز نے اس رپورٹر کو تحقیقات مکمل ہونے تک معطل کر دیا ہے۔اس تنقید کی وجہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو ہے جس میں احمد فراز کو ایک ٹریفک وارڈن کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہوئے اور انھیں مارتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔اس ویڈیو کے بعد لاہور کے شادمان تھانے میں درج کی گئی رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ یہ واقعہ جیو نیوز کے ایک کیمرہ مین کی جانب سے ٹریفک وارڈن اور سائیکل سوار کے درمیان بحث کو فلمبند کرنے سے شروع ہوا۔
ایف آئی آر کے مطابق ٹریفک وارڈن اور سائیکل سوار دونوں ٹریفک سینٹر شادمان پہنچے جہاں کیمرہ مین بھی پہنچا جس کے دفتر میں ویڈیو بنانے پر ٹریفک پولیس نے اسے منع کیا اور اس کا فون اس سے لے لیا۔ جس کے بعد کیمرہ مین نے اپنے ساتھیوں کو بلایا جن میں رپورٹر احمد فراز بھی شامل تھے۔اس کے بعد ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ احمد فراز اور ان کے ساتھیوں نے ٹریفک وارڈن اور ان کے ساتھی کو گالیاں دیں، تھپڑ مارے اور تشدد کا نشانہ بنایا۔ جس کے نتیجے میں ٹریفک وارڈن کی شرٹ پھٹ گئی۔
جیو نیوز نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ایک ٹویٹ میں لکھا ‘جیو نے رپورٹر احمد فراز کو تحقیقات مکمل ہونے تک معطل کر دیا ہے۔ یہ اس واقعے کے روز ہی کر دیا گیا تھا۔ جیو احتساب پر یقین رکھتا ہے اور اپنی ٹیم کی جانب سے کسی بھی تناظر میں کیے گئے تشدد کو برداشت نہیں کرے گا۔’سوشل میڈیا پر اس واقعے پر شدید تنقید کی جا رہی ہے جو یومِ شہدا پولیس کے دن رونما ہوا تھا۔ڈاکٹر عالیہ کریم نے لکھا ‘صحافت کا غلط استعمال کرنے کی اجازت ہم ہرگز نہیں دیں گے۔ نادر بلوچ نے لکھا ‘بطور صحافی میں احمد فراز کے اقدام کی شدید مزمت کرتا ہوں اور واقعہ کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کرتا ہوں۔ علی رضا نے لکھا ۔ کیا کوئی رپورٹر یا اینکر قانون سے بالاتر ہے یا ان پر کوئی اخلاقی روک نہیں ہے؟ اس رپورٹر کو کون سزا دے گا؟’
تاہم جہاں لوگ صحافی کی اس حرکت کی مذمت کرتے دکھائی دیے وہیں پولیس کے اقدام کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ندیم حیدر کا کہنا تھا کہ ‘احمد فراز کی غلطی دیکھنے والوں پولیس گردی کی بھی مخالفت کرو۔ پولیس کو حق نہیں کہ وہ کیمرہ چھینے اور غریب سائیکل والے کو بے جا تنگ کرے۔ اور جب کیمرہ مین اس کی فوٹیج بنائے تو اس کو بھی یرغمال بنا لے۔ ٹریفک پولیس چالان کر سکتی ہے۔ مگر حبس بےجا میں نہیں رکھ سکتی۔’اس موقع پر بہت سے لوگوں نے جیو نیوز کے رپورٹرز اور اینکرز کو ٹیگ کر کے بھی سوال کیے جو چند دن قبل مری میں ڈرائیورز کی جانب سے ٹریفک وارڈن کو تشدد کا نشانہ بنانے پر تبصرہ کر رہے تھے۔چوہدری محمد اکرم نے سوال کیا کہ ‘کاش آپ کے اندر قانون کی بالادستی کا یہ جذبہ مری میں صرف ڈرائیور گردی کے خلاف نہیں، لاہور میں صحافی گردی کے خلاف بھی ابھرتا جب گذشتہ روز جیو نیوز کے صحافی احمد فراز کی قیادت میں صحافیوں نے ٹریفک وارڈن کے ساتھ ہاتھا پائی، بدتمیزی اور گالی گلوچ کی تھی اور اس کی وردی بھی پھاڑ دی تھی۔’جیو کے سینیئر اینکر طلعت حسین نے لکھا ’ہمارے لاہور رپورٹر اور ٹریفک وارڈن کے حوالے سے جو بھی سیاق و سباق ہے اس سے قطع نظر اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ پولیس والے نے زدوکوب کیا۔ یہ بہت قابلِ افسوس ہے۔(بشکریہ بی بی سی )۔