تحریر: انورحسین سمرا،تحقیقاتی صحافی۔۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں سماجی برائیاں اس قدر سرائیت کر چکی ہیں کہ ہر کام میں دوہرا معیار ہمارا قومی المیہ بن چکا ہے. جب کوئی سیاسی قدآور شخص اپنے قول و فعل میں دوہرا معیار اپناتا ہے تو قوم کی تباہی و بربادی دروازے پر دستک دینا شروع کردیتی ہے اور اخلاقیات اپنی بساط لپیٹ کر دوسرے دروازے سے ماتم کرتی نکل جاتی ہے. قوم ان حالات کا بروقت تدارک نہیں کرتی، تباہی کی دلدل میں قدم رکھتی جاتی ہے اور شرمندگی اس کا مقدر بن جاتی ہے. ملک خداداد میں ارباب اختیار نے کبھی بھی عدالتوں کا احترام کرنا گوارا نہ کیا اور عدالتیں بھی امیر و غریب کو انصاف کی فراہمی میں دوہرے معیار پر کاربند رہیں. طاقتور کے لئے آدھی رات کو مسند لگا کر انصاف فراہم کیا اور کمزور و غریب کو دن کے وقت بھی دھتکار دیا گیا. طاقتور کے لیے نظریہ ضرورت کے جسم میں روح پھونک دی جاتی ہے اور کمزور کے لیے حقائق کی نفی کرنے کو طرہ امتیاز سمجھا جاتا ہے. تمام تر امتیازی حربوں میں پھر بھی عدل عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مثال دینے میں شرمندگی بھی محسوس نہیں کی جاتی۔۔ گورے کی عدالت آج بھی انصاف کی بلاامتیاز فراہمی میں ہمارے قاضی کی عدالت سے ہزار درجے بہتر کام کررہی ہیں۔ گزشتہ روز چیری بلاسم کے وکلاء نے لندن کی عدالت میں ڈیلی میل کیس میں حکم امتناعی میں توسیع کے لیے موقف اپنایا کہ ان کا کلائنٹ بہت مصروف ہیں اور جواب کے لیے مزید وقت دیا جائے. اس استدعا پر جج نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ میری عدالت میں وزیر اعظم اور عام آدمی برابر ہیں. یہ وہ طمانچہ تھا جو انصاف فراہم کرنے والے ادارے سے متوقع تھا اور اگر یہ عدالت کھلواڑ کرنے والی اس مملکت خداد ادکی ہوتی تو استدعا کی ضرورت ہی نہیں ہونا تھی. انصاف اور حکم امتناعی نے جعلی صادق و آمین اور منی لانڈرنگ کے بادشاہ کے قدم چومنے تھے اور ورکرز نے ڈھول کی تاپ پر اس اعزاز کی منادی خوب کرکے بریانی سے شکم خوری کرنا تھی. پرویز رشید جیسے بظاہر نرم خو آدمی نے سچائی اور حق کی فتح کا بیان بھی داغ دینا تھا اور اخلاقیات کا درس بھی دینا تھا اگرچے ان کی اخلاق باختہ اور بیہودگی سے لبریز ویڈیو عام ہو چکی تھی. یہ وہ دوہرا معیار ہے جس نے ہمارے معاشرے کی اخلاقی قدروں کو دیمک کی طرح چاٹ لیا ہے، بے راہ روی، عدم برداشت، بد زبانی اور کرپشن کو ہوا دی ہے. نوجوان نسل میں منفی رجحان کو فروغ دیاہے. کپی تان کی طرف سے سیاسی مخالفین کے لیے استعمال کیے جانے والے الفاظ نے جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کرتے ہوئے معاشرے کو مزید تقسیم کر دیا ہے. آج کا نوجوان بلاتفریق کہ وہ پڑھا لکھا ہے یا ان پڑھ وہ عدم برداشت، صبر اور حوصلہ کی قوت سے عاری ہوتا جارہا ہے جو اس ملک کے روشن مستقبل کو خوف ناک بنا سکتا ہے. ضرورت اس امر کی ہے کہ انصاف کی فراہمی اور قول و فعل میں دوہرے معیار کی حوصلہ شکنی کی جائے اور معاشرے میں رواداری، محبت اور اخلاقی اقدار کو فروغ دیا جائے. اس عمل سے ملک ترقی کرے گا اور معاشرے میں نفرت بھی ختم ہوگی. اربابِ اختیار سے آغاز اچھے نتائج دینے کی شرط اول ہے ورنہ ماضی کے اوراق میں بدنامی اور شرمندگی ہمارا مقدر بن جائے گی۔(انورحسین سمرا، تحقیقاتی صحافی)