تحریر: انور حسین سمرا،تحقیقاتی صحافی۔۔
ارب یا عرب کے درمیان لکھتے ہوئے فرق نظر آتا ہے لیکن کسی محفل میں بولا جائے تو کنفیوز کرتا ہے کیونکہ امیروں کی محافل میں دونوں قابل قبول جبکہ غریبوں کے جھرمٹ میں دونوں ناپید ہوتے ہیں۔۔ اس ملک خداداد میں اشرافیہ کو ارب سے اور غریب کو عرب سے لگائو اور محبت رہی کیونکہ اشرافیہ جن میں سیاست دان، ججز، بیوروکریٹس اور جنرل شامل ہیں اور غریبوں کے ٹولے میں عام عوام لتر کھاتی نظر آتی ہے۔۔ شوباز شریف اپنے پتروں اور دمادا کے ہمراہ جب بھی واردات ڈالتے ہیں تو مبینہ منی لانڈرنگ کی رقم 14ارب نکلتی ہے۔۔ احد چیمہ پر جب کرپشن کا ریفرنس بنتا ہے تو اربوں کا بنتا ہے، فواد حسن کے خلاف 4 ارب کے اثاثے بنانے کا الزام ہے، زرداری پر کرپشن کا الزام لگتا ہے تو اربوں کا سرے محل نکلتا ہے، شرجیل میمن کے گھر سے کرپشن کے اربوں ریکور ہوتے ہیں، جہانگیر ترین چینی میں واردات ڈالتے ہیں تو اربوں میں، اسحاق ڈالر ناجائز اثاثے نکلتے ہیں تو اربوں کے، مالم جبہ فراڈ ہوتا ہے تو اربوں میں، ریئسانی کے گھر سے کرپشن کا سرمایہ نکلتا ہے تو اربوں میں، ملک ریاض سرکاری زمین پر ناجائز قبضہ کرتا ہے تو اربوں مالیت کی،دیگر پراپرٹی مافیا واردات ڈالتا ہے تو اربوں میں، ڈاکٹر امجد عام عوام سے ایڈن ہاوسنگ فراڈ کرتا ہے تو اربوں میں، سینٹر گلزار کے چشم و چراغ عوام سے پاک عرب میں فراڈ کرتے ہیں تو اربوں میں، واپڈا چیئرمین ڈیموں کی تعمیر میں مبینہ دہاڑی لگاتا ہے وہ بھی اربوں میں، ڈی ایچ اے سٹی فراڈ بھی اربوں میں، ڈبل شاہ سکینڈل بھی اربوں میں، پاپا جان پیزا کی مالیت بھی اربوں میں، یک چشمی جسٹس کے بیٹے کی جائیداد نکلتی ہے تو اربوں میں، ڈیم فنڈز میں خردبرد نکلتی ہے تو اربوں میں، قرض اتارو ملک سنوارو میں کرپشن بھی اربوں میں، ریکوڈیک منصوبہ میں کرپشن بھی اربوں میں، بحریہ ٹاؤن فراڈ اور علیم خان لینڈ مافیا فراڈ بھی اربوں میں اور باو جی لندن فلیٹ لیتے ہیں تو مبینہ اربوں کی کک بیکس سے اور میری لندن تو کیا پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نی والی نانی کی جائیدادیں نکلتی ہیں تو اربوں میں، پیٹرولیم میں کپی تان کے دوست واردات ڈالتے ہیں تو اربوں میں، کرونا وباء کے فنڈز و خریداری میں خردبرد ہوتی ہے تو اربوں میں، ڈاکٹر ظفر مرزا کپی تان کے اعتماد سے ادویات میں دہاڑی لگاتا ہے تو اربوں کی، وسیم اکرم پلس ترقیاتی منصوبوں میں واردات ڈالتا ہے تو اربوں کی، سلائی مشین سے جو ناجائز کمائی کی جاتی ہے وہ بھی اربوں میں، جو گھڑی چوری ہوتی ہے وہ گفٹ بھی عربوں سے اور فروخت بھی اربوں میں اور اب میاں مٹھو سمدی کو 6 سال میں جائیدادیں بنا کر دی ہیں تو اربوں میں.۔۔
اشرافیہ جب اربوں میں وارداتیں ڈالتی ہیے تو احتساب سے بچنے کے لیے جو شہادت فراہم کی جاتی ہے تو وہ عربوں کی جس کا مطلب ہے کہ ارب اور عرب کا چولی دامن کا ساتھ ہے. اشرافیہ عربوں کے ساتھ رشتہ داری کرتا ہے اور غریب ان کی مزدوری کرنے کو ترستا ہے۔۔ اربوں کی کرپشن کرکے عربوں کو شہادت کے لیے خریدنے کا کلچر عام ہوچکا ہے کیونکہ اس پیسے کو عرب ممالک میں ہی محفوظ کیا جاتا ہے. ملک میں اربوں کی واردات ڈال کر پناہ لی جاتی ہے تو وہ بھی عربوں کے پاس.۔۔یہ خوبصورت امتزاج اس ملک خداداد میں اشرافیہ کو میسر ہے جبکہ غریب کی قسمت میں نہ ارب ہیں نہ ہی عرب لفٹ کرواتے ہیں۔۔ اشرافیہ کو اقامہ لینا ہو تو عرب کام آتے ہیں اور اگر اربوں کی کرپشن محفوظ کرنی ہو تو تب بھی عرب ہی کام آتے ہیں. غریب کی دونوں ارب و عرب تک رسائی نہیں ہے جبکہ بااثر مافیا کو یہ دونوں ہر وقت میسر ہوتے ہیں. غریب عوام کدھر جائیں کیونکہ نہ ارب ہاتھ آتے ہیں نہ عرب ویزے دیتے ہیں۔۔
اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کے ارباب اختیار کب تک دونوں ارب و عرب سے مستفید ہوتے رہیں گے اور عوام کب تک ارب و عرب کے ہاتھوں زلیل ہوتے رہیں گے؟؟ کب تک ارب پتی مافیا اس ملک کی قسمت اور عوام سے بلا خوف کھیلتا رہے گا اور کب تک غریب عوام ان دونوں تک رسائی کے لیے قربان ہوتے رہیں گے؟؟ کب تک ان ارب پتی بااثر لیٹروں، چوروں، بددیانت اور بدعنوان افراد کو مزید لوٹ مار کی اجازت دی جاسکتی ہے اور کون ان کو ہاتھ ڈالے گا، کڑا احتساب کرے گا اور لوٹی ہوئی دولت واپس لے گا.؟؟اگر ایسا نہ ہوا تواس ملک کے مستقبل کا تابناک ہونا خطرے میں پڑسکتا ہے۔۔((انور حسین سمرا،تحقیقاتی صحافی)۔۔