arab pati bhikari | Shahnawaz Khan

ارب پتی بھکاری

تحریر: شاہنواز خان۔۔

تین دہائیاں قبل تک یہ پیشہ پیعمبری تھا۔ اس کے ہر رکن کو معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ۔ پھر یکایک سیٹھوں، جاگیرداروں اور صنعت کاروں کی نظر اس پر پڑی اور ایسی پڑی کہ اسے پیشہ بنا دیا گیا ۔ ہر طرف طوائفیں اور دلال نظر آنے لگے ۔۔۔

اور اس پیشے سے تعلق رکھنے والے وہ سفید ہوش عزت دار ایک لمحے میں بازار حسن میں پان اور گجرے بیچنے والے لگنے لگے۔۔۔ ہائے صحافت تجھے پوری دنیا نے عزت دی لیکن ملک عزیز میں تجھے کوٹھے پر بیٹھنے والی طوائف سے بھی کمتر کر دیا۔۔چند روز قبل ایک دوست کے وٹس اپ سٹیٹس نے تو جیسے دریا کو کوزے میں بند کردیا ہو۔ “وہ جو خواب تھے ذہن میں وہ تو نہ کہہ سکا نہ لکھ سکا۔۔۔ کہ زباں ملی تو کٹی ہوئی جو قلم ملا تو بکا ہوا۔

صرف تین دہائیاں اور ایسی کسمپرسی کہ جس پیشے سے تعلق رکھنے والے اداروں کو یہ مقام حاصل تھا کہ ان کے سنگ بنیاد قائداعظم محمد علی جناح نے رکھے ۔۔۔ اور آج وہ ادارے ٹکوں ٹکوں بکنے لگے۔۔۔پاکستان تو پاکستان اب تو دیار غیر میں بھی اس صحافت کی بولیاں لسٹ کے آخری نمبر پر لگتی ہیں ۔۔ صحافتی دکالوں نے ارب پتی مالکان کے اداروں کا ریٹ برطانیہ میں دس پاؤنڈز سے پچاس پاؤنڈز تک کر دیا۔۔۔ واہ رے تیری بے نیازی ایک طرف تو ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دینی اظہار امارت میں کسی سے پیچھے نہیں رہنا ۔۔ میدان سیاست میں بادشاہ گر کہلوانے کا شوق اور دوسری طرف تمھارے دلالوں نے تمھیں اور تمھارے نام کوٹکے ٹکے میں بیچ دیا۔۔۔

واہ میر شکیل الرحمن صاحب کیا کہیں آپ کی بادشاہ گری کا، میاں عامر محمود صاحب کیا کہیں آپ کی شاہ خرچیاں اور ایک ایک رات میں کڑوروں کے ڈنر ، مجیب الرحمن شامی صاحب کیا کہیں آپ کی معاملہ فہمی اور بزرگی کو، میاں رشید، میاں حنیف کیا کہیں آپ کے سفرے لگانا اور لنگر چلانا ، محسن نقوی صاحب کیا کہیں آپ کی سوشل میڈیا ہر چلنے والی ملازمین سے ہمدردیوں کی سیریل کا ۔۔۔۔۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ سب کا ریٹ ایک سا ہی ہے ۔ معاملہ دلال کا ہے کہ وہ کتنا کاریگر ہے اور ریٹ کتنا بڑھا سکتا ہے ۔۔۔

سننے میں آیا تھا کہ کسی نے میر شکیل الرحمن صاحب کو آئینہ دکھایا تو انھیں اتنی شرمندگی ہوئی کہ جیو نیوز کا برطانیہ کا بلیٹن  ہی بند کر دیا۔ اب اس کی تصدیق تو وہ خود یا ان کے متعلقین ہی کر سکیں گے ۔۔۔ لیکن دعا ہے کہ کوئی ایسے آئینے باقی سب کو بھی دکھا دے ۔۔۔۔۔ کیونکہ اب تو یہ حال ہو چکا کہ آپ کے بچے کی سالگرہ ہے یا ختنہ ہے یا شادی ہے اور آپ کچھ پاؤنڈز کا خرچ کر سکتے ہیں تو پھر دیکھیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ان ارب پتیوں کے ادارے آپ کی دہلیز پر ایسے ہی پہنچیں گے جیسے لڑکے کی پیدائش پر زنخنے پہنچتے ہیں ۔ اور برطانیہ میں مزید رعایتیں ملیں گی ۔ کسی ایک سے بس ٹھیکا کر لیں ۔ پانچ مائیک، سات مائیک یا دس مائیک ۔ پھر دیکھ تماشا یہ ناچ ناچ ٹیلی ویژن کی سکرین توڑ دیں گے۔

ہائے رے صحافت اور کیا کہوں بس بازار لگا ہوا ہے اور تجھے بکنا ہے اب تیری قسمت کہ تجھے دلال کیسا ملے ۔۔۔۔پہلے تو سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ ان ارب پتیوں کی کیا مجبوریاں تھیں جو انھیں ایسے دلال نما “صافی” اپنی ملازمت میں رکھنا پڑے ۔۔۔۔  پھر آہستہ آہستہ چیزیں واضح ہوتی چلی گئیں ۔۔۔

یہ کوئی سیدھا سادہ سا کھیل نہیں بلکہ تار عنکبوت ہے ۔۔۔ جس کے جالوں میں سب جکڑے ہوئے ہیں ۔۔۔ ایک تو ارب پتیوں کو اپنا الو سیدھا کرنا تھا ۔۔۔ اپنا سرمایہ ملک سے باہر نکال کر اپنی نسلوں کی عیاشیاں محفوظ کرنا تھیں ۔ اس کام کے لئے ایسے “صافی” بہترین چناؤ تھے۔۔۔ جنھوں نے تمام راستے نکالے اور کئی جگہوں پر اپنا آپ بھی داؤ پر لگایا ۔ یعنی کہ کل کلاں کچھ ہو تو ساری قانونی کاروائی اسی کے خلاف ہو۔ لیکن ان صافیوں کو بھی تو اپنا مستقبل سب اچھا نظر آ رہا تھا سو وہ بھی ہنسی خوشی ساتھ میں شامل رہے ۔۔۔ اور آج سب خوش ہیں ارب پتیوں کا اربوں روپیہ ملک عزیز سے باہر نکل کر سرمایہ کاری میں لگ گیا اور تاحال لگ رہا ہے اور “صافیوں” کی چاندی ہے ۔۔۔ یعنی ارب پتی سنار ہیں اور “صافی” نیارے کی طرح گندی نالیوں سے اپنا حصہ وصول کر رہے ہیں ۔۔۔۔

خیر اس تار عنکبوت کا دوسرا پہلو زیادہ خوفناک ہے ۔۔ اور وہ یہ کہ ایسے ہی “صافی” اپنے پیشے کی دلالی کرتے کرتے ملک عزیز کے تمام دشمنوں سے بھی مل بیٹھے ہیں ۔۔۔ پہلے پہل تو معاملہ قادیانیوں اور ان کی پاکستان کے خلاف سازشوں تک ہی محدود تھا ۔۔۔ پھر انھی قادیانیوں کے توسط سے وطن عزیز کے ہمسائیوں سے بھی مل بیٹھے ۔۔ بات تو یہاں تک آ گئی کہ ہمسائیوں کے سفارت خانوں اور جم خانوں میں پارٹیوں کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے زیارتی دورے بھی ہو گئے ۔۔۔ یعنی آم کے آم اور گھٹلیوں کے دام ۔۔۔۔ لیکن کیا ہم سب نیند میں ہیں ۔ ہمارے محافظ کہاں ہیں ۔۔۔ کیا انھیں سلیپنگ سیلز کی یہ نئی نسل نظر نہیں آتی۔۔۔ اس پہلے بھی ایسی ہی ایک نسل نے دو دہائیوں سے زائد عرصے تک ملک عزیز کے اندر اپنے کھیل کھیلے تھے ۔۔ کبھی اوکاڑہ فارمز کو ایک سکینڈل بنایا گیا ۔۔۔ تو کبھی عزت کے نام پر قتل اور عورتوں کے خلاف جرائم کو اپنی ڈھال بنا کر اس کے پیچھے اپنی کاروائیاں کرتے رہے۔۔۔ اور اب تیار ہونے والی نئی نسل کسی اور طریقے سے ہم پر وار کرے گی۔۔

ہائے رے انسان تیرے لالچ کا کیا کہنا اب دوسری طرف انھی “صافیوں” نے وطن عزیز میں اپنی کاروائیاں شروع کر دیں ۔۔۔ اور خود ارب پتیوں کی صف میں آنا چاہ رہے ہیں ۔۔۔۔ ملک ریاض کی شاندار مثال کو سامنے رکھتے ہوئے انھوں نے بھی کاروبار زمین کو ہی چنا ہے ۔۔۔ کیونکہ بیرون ممالک میں کمائی ساری دولت سفید ہو کر وطن عزیز میں انویسٹ ہو گی اور پھر اگر وہاں کوئی رکاوٹ بھی آئے تو ان کے مربّی اس رکاوٹ کو ہٹا دیں گے۔  آجکل وطن عزیز میں ہاوسنگ سوسائٹیوں کا جو طوفان بدتمیزی آیا ہوا ہے اس میں کہیں نہ کہیں یہ چند “صافی” بھی بہتی گنگا میں اپنے ہاتھ دھو رہے ہیں ۔۔۔ بات وہی ہے کہ کسی نہ کسی دن یہ نئی نسل بہت بارسوخ ہو کر وطن عزیز میں پہنچے گی اور اس پاک مٹی کو پامال کرنے کی  ناپاک کوششیں کرے گی۔۔ اگر تحقیق کی جائے تو یقیناً اس تار عنکبوت کے تمام تانوں بانوں کا اختتام ایک ہی جگہ پر ہو گا ۔۔ اور ان کا مقصد بھی وہی ہو گا جو ان کے آنسو اجداد کا ہمیشہ سے رہا ہے ۔۔

وہ پہلے بھی ناکام رہے تھے اور آئندہ بھی ایسا ہی ہو گا انشا اللہ ۔۔ اس مملکت خداداد پر خدا کی رحمت ہے۔۔۔(شاہنواز خان)۔۔

(زیرنظر تحریر برطانیہ سے سینئر صحافی کی ہے، جو پاکستان میں سٹی نیوزنیٹ ورک،ڈان، دنیانیوز، وقت نیوز میں کام کرچکے ہیں۔۔ اس تحریرکے مندرجات سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔۔

How to write on Imranjunior website
How to write on Imranjunior website

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں