تحریر: شبانہ سید
صبح سویرے ای میل اور سوشل میڈیا چیک کرتے ہو ئے جو بہترین وڈیو سب سے پہلے دیکھنے کو ملی ،، وہ تھا گذشتہ روز وا ئرل وڈیو میں تنقید کا نشانہ بننے والی اینکر بشریٰ سحرین کا سوشل میڈیا تجزیہ کاروں کو جواب ۔۔ جس میں انہوں نے”سیب” “خوبانی” کے بزنس کا بھی بتایا۔ کل مختلف پیجز پر ایپل وڈیو پر بھانت بھانت کے کمنٹس پڑھ کر ابھی سوچا تھا کہ اینکر کا کانٹیکٹ نمبر لے کر ان کا موقف بھی لیا جا ئے ، لیکن جواب انہوں نے خود ہی دے دیا۔ امید ہے خود ساختہ ججز کو تسلی ہوگئی ہوگی۔
کسی بھی وڈیو کو وا ئرل کرنا ، اسے اپنے مطلب کا اینگل دینا ،،ہماری عوام کے با ئیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ کہتے ہیں ناں کہ خبر ایک ہی ہوتی ہے ، سوال یہ ہے کہ آپ نے اسے کس اینگل سے لیا ہے ؟،، یا آپ عوام کو اس خبر کا کون سا اینگل دکھانا چاہتے ہیں؟ یہ وڈیو کافی پرانی ہے ، روانی میں گفتگو کرتے ہو ئے ایک چھوٹی سی غلطی نے کسی سوشل میڈیا صارف کے دماغ کی گھنٹی بجا ئی ،اور انہوں نے پھر اینکر کی بینڈ بجا ئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے وڈیو سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ۔ اور بغیر سوچے سمجھے نہ صرف منچلے نوجوانوں نے بلکہ افسوس کہ پروفیشنلز نے بھی شئیر کی ۔
ہم تو بس پوسٹ دیکھتے ہیں ، کمنٹ کرتے ہیں ،، دل پشوری کے لیے شئیر بھی کرتے ہیں۔ اور جو بات آجائے کسی فیلڈ کی ،، تو اس پر تجزیے بھی کرتے ہیں۔ “ایپل گرل” یہی کہا تھا ناں؟؟ تو صاحبان ،، اینکرنگ سیٹ کا پریشر ہینڈل کرنا تو دور کی بات ،، کبھی اس سیٹ پر بیٹھے بھی ہیں؟ پتہ بھی ہے اس جگہ پہنچنے کے لیے کیا پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں،، کتنی محنت کرنا ہوتی ہے؟ ایک اینکر کی غلطی دیکھ کر ( جس کی وہ وضاحت بھی کرچکی ہیں) فیلڈ کے اینکرز کی کارکردگی پر بھی سوالات کھڑے کردیے۔
تنقید برائے اصلاح ہو تو کیا ہی کہنے ،، لیکن تنقید برائے تنقید کو اپنے پاس ہی رکھا جائے تو بہتر ہے۔
ماضی قریب میں وائرل دیوانگی کی بہترین مثال اگر میں دے سکوں تو رمضان میں وائرل ہونے والی “آپ کا مطلوبہ نمبر بند ہے” کی ہے۔ فرحین ملک ہماری میڈیا کی بہت اچھی ساتھی ہیں اور کئی انٹرویوز میں خود انہوں نے یہ کہا کہ انہیں بالکل توقع نہیں تھی کہ یہ وڈیو اتنی وائرل ہوجائے گی۔ اب اگر بات کی جائے اینگل کی ۔ ایک صاحب نے فرحین کی وڈیو ریکارڈ کی ، انہیں پتہ چلا کہ فرحین “آئی وی آر” ریکارڈ کرتی ہیں۔ اور انہوں نے وڈیو کو اس کیپشن کے ساتھ وائرل کیا ” ہم نے وہ آواز “ڈھونڈ لی” اب اس “ڈھونڈ” والی بات پر سوشل میڈیا صارفین نے جو ردعمل دیا وہ سب کے سامنےہے۔ فرحین بھی اس بات سے اتفاق کریں گی کہ وائس اوور ایسی فیلڈ ہے ، جس میں آوازیں جانی جاتی ہیں، شخصیات کو کوئی نہیں جانتا۔ اور یہی ایک وائس اوور آرٹسٹ کا نقصان ہے۔ کتنے لوگ ہیں جنہوں نے حسن شہید مرزا (مرحوم)، فوزیہ کھوڑو یا ایسے ہی کئی وائس اوور آرٹسٹوں کا چہرہ دیکھا ہوگا؟ یہ آواز کی دنیا کے لیجنڈز ہیں۔ لیکن وہی بات کہ اس فیلڈ میں چہروں کی شناخت کم ہی ہے۔ (اس موضوع پر بھی آپ کو بعد میں کبھی معلومات دیں گے) واپس وائرل وڈیو کی طرف آتے ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ ایک اچھا قدم تھا کہ پس پردہ شخصیات کو سامنے لایا جائے۔ لیکن یہاں سے کہانی شروع ہوئی (منجن ) کی ۔ معذرت کے ساتھ ،، میڈیا کی کچھ اصطلاحات عجیب سی لیکن بات سمجھانے کے لیے ضروری ہیں۔ آپ نے اکثر یوٹیوب پر کیپشن پڑھ کر کوئی وڈیو اوپن کی ہوگی ،،لیکن ساری وڈیو دیکھ کر پتہ چلا ہوگا کہ جس میں دلچسپی تھی ،اس بات کا ذکر ہی نہ تھا فسانے میں۔۔ (وہ سارا گیم ویورشپ سمیٹنے کا ہے ) بس اس معاملے میں بھی یہاں سے سوشل میڈیا “بزنس” شروع ہوا ۔ “ڈھونڈ لی” والی ٹرک استعمال کرتے ہوءے وڈیو کو شیئر لائیک اور کمنٹس سمیٹے گئے ۔ اور تو اور ٹیء وی چینلز بھی اس دوڑ میں شامل ہوئے ۔ ایک انٹرویو میں تو اینکر نے حد ہی کردی ۔ نہایت “شوق” سے سوال کیا گیا ، اچھا وہ بتاءیں ناں پزا آرڈر کیسے کریں گے؟ اس کی ریکارڈنگ کیسی کریں گی؟ یعنی وائس اوور آرٹسٹ کو چکرا کر رکھ دیا۔ البتہ ایک چینل نے اس چیز کو کافی بامعنی انداز میں کور کیا اور پس پردہ آوازوں کے تعارف کے حوالے سے اس وڈیو کا ذکر کیا۔ اور خود آرٹسٹ کا انٹرویو لیا۔
پڑھنے والوں کے لیے چھوٹی سی معلومات شیئر کرتے چلیں ، پاکستان میں آئی وی آر ریکارڈنگز سن دو ہزار میں شروع ہوئی جب موبی لنک اور دیگر موبائل کمپنیز نے آئی وی ٓر ریکارڈنگز کرانا شروع کی ۔ اور مختلف اداروں اور موبائل نیٹ ورکس کے لیے مختلف وائس اوور آرٹسٹ یہ کام کر رہے ہیں۔ یعنی آپ مختلف جگہوں پر مختلف آوازیں سنتے ہیں۔ تو “ڈھونڈ لیا” کہہ کر کسی بھی فیلڈ کو ناتجربے کار انداز میں پیش نہ کریں پہلے ریسرچ کریں۔ لیکن نہیں بھیا ۔۔ اتنا دماغ کون لگائے؟؟ کچھ وائرل چیزیں مثبت اثر رکھتی ہیں ، تو کچھ انسان کو توڑ بھی دیتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر صارفین کی تنقید سے دلبرداشتہ ہوکر خودکشی جیسے واقعات بھی زیادہ پرانی بات نہیں۔ اس لیے کہتے ہیں کہ کچھ اچھا بولیں ،، ورنہ ۔ “خاموش”(شبانہ سید)۔۔
(زیر نظر تحریرایک ایسی وڈیو کے حوالے سے ہے جسے کچھ روز پہلے ہم نے شیئر کی ، ہمیں لگتا ہے کہ اس پورے آرٹیکل میں ہمیں طنز کا نشانہ بنایاگیا ہے، خاص طور سے اس کا دوسرا پیراگراف جس کا اختتام اس جملے پر ہے کہ ۔۔ صرف منچلے نوجوانوں نے بلکہ افسوس کہ پروفیشنلز نے بھی شئیر کی ۔۔اس وڈیو کے حوالے سے ہمیں کئی لوگوں نے رابطہ کیا، خود ایپل گرل یعنی بشری سحرین نے بھی فیس بک مسینجر پر ہم سے رابطہ کیا، اس حوالے سے ہم اپنا موقف الگ سے دیں گے۔۔ علی عمران جونیئر)