آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) نے وزارت اطلاعات کی جانب سے 3؍ اپریل 2020ء کوجاری نوٹیفکیشن پر تحفظات کا اظہار کیا ہے جس میں سرکاری اشتہارات اور اشتہارات کےبلز کی ادائیگی کے نئے طریقہ کار کو نوٹیفائی کیا گیا ہے۔ اے پی این ایس کے صدر حمید ہارون اور سیکرٹری جنرل سرمد علی نے کہا ہے کہ سینٹرلائز ایڈورٹائزنگ پالیسی کے مسودے میں جو میکنزم تجویزکیا گیا ہے وہ اسٹیک ہولڈرز اے پی این ایس ، پی بی اے اور پی اے اے کے ساتھ مشاورت کے ذریعے حتمی نہیں کیا گیا حالانکہ وزارت اطلاعات کی جانب سے اس کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ اے پی این ایس، پی بی اے اور پی اے اے پہلے ہی اپنی دستاویزات جمع کرچکے ہیں لیکن اب تک وزارت اطلاعات کی جانب سے مشاورتی اجلاس طلب نہیں کیا گیا۔ اے پی این ایس نے ایک بار پھر دہرایا کہ وزارت اطلاعات کی جانب سے یکطرفہ نوٹیفکیشن کااجراء اس امر کو تقویت دیتا ہے کہ وزارت اطلاعات کیلئے مشاورت کا عمل بے معنی ہے کیونکہ وہ پہلے ہی آزاد صحافت کی بنیادوں کیخلاف پالیسی پر عملدرآمدکا فیصلہ کرچکی ہے ۔ اے پی این ایس کے عہدیداروں نے کہا ہے کہ مجوزہ میکنزم قابل عمل نہیں کیونکہ اس وقت ایڈورٹائزنگ ایجنسیز کی جانب سے تمام سرکاری اشتہارات ، ڈسپلے حتیٰ کہ کلاسیفائیڈ جاری ہوچکے ہیں جو اسپانسر ڈپارٹمنٹ سے اشتہارات کی رقم وصول کرتی اور اخبارات کے واجبات ادا کرتی ہے ۔ اگر وزارت کی جانب سے مجورہ میکنزم نافذ کیا گیا تو اس کا مطلب ایڈورٹائزنگ ایجنسیز کو ادائیگیوں کی ذمہ داری سے آزاد کرنا ہوگا اور اخبارات کو اپنے بلز کی ریکوری کیلئے ایک صورتحال سے دوسری صورتحال کی طرف جانا پڑے گا ۔ سرکاری اشتہارات کی ادائیگیوں کے نئے مجوزہ میکنزم کے حوالے سے ایڈ ایجنسیز کو فکسڈ 15؍ فیصد کمیشن کا نوٹیفکیشن مسابقتی کمیشن آف پاکستان کی واضح ہدایت کی براہ راست خلاف ورزی ہے کہ اخبارات دوطرفہ اتفاق کے بعد ایجنسیز کے ساتھ ٹریڈ ڈسکاؤنٹ شیئر کریں گے۔ اے پی این ایس وزارت اطلاعات سے مطالبہ کرتی ہے کہ نوٹیفکیشن واپس لیا جائے اور تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت حتمی ہونے تک مجوزہ پالیسی پر عملدرآمد سے باز رہے۔