خصوصی رپورٹ۔۔
اخباری مالکان کی تنظیم آل پاکستان نیوزپیپرز سوسائٹی( اے پی این ایس) کے سالانہ انتخابات میں پہلی بار اراکین کی کثیر تعدادمیں عدم شرکت کی وجہ سے اے پی این ایس میں عملاً دو گروپ بن گئے ہیں۔ ایک گروپ نے انتخابات میں شرکت سے انکار کر دیا کیونکہ ان کے نزدیک اے پی این ایس کے انتخابات غیر آئینی ہیں کیونکہ بقول ان کے غیر آئینی جعلی ووٹر لسٹ کی بنیاد پر انتخابات کرانے کا فیصلہ جمہوری عمل اور پیشہ ورانہ تقاضوں کے منافی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس سے قبل کئی سالوں سے میرٹ پر رکنیت سازی کرنے کے بجائے پسند نا پسند کی بنیاد پر رکنیت سازی کر کے غیر آئینی بنیادوں پر ووٹر لسٹ مرتب کی جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ اے پی این ایس کے سالانہ انتخابات میں ممبران کی تقریباً 40% فیصد تعداد نے شرکت نہ کر کے اس انتخابی عمل پر اپنے عدم اعتماد کا بھرپور اظہار کیا ہے۔
مقامی خبررساں ایجنسی کے مطابق۔۔ مبینہ غیر منصفانہ وغیر آئینی انتخابی فہرست کے نتیجے میں تنظیم کے ایک رکن کو کئی کئی ووٹ جبکہ ان کے مخالفین کو صرف ایک ووٹ کا حامل قرار دینا غیر مساویانہ اقدام ہے۔ یہ کئی کئی ووٹ رکھنے والے اس رکن کو جس بنیاد پر یہ ”طاقت” دی گئی ہے ، اسی بنیاد پر دیگر اراکین کے مزید ووٹوں کو تسلیم نہیں کیا گیا اور اُنہیں صرف ایک رکن اور ایک ووٹ کی بنیاد پر شمار کیا جاتارہا ہے۔یہ غیر آئینی انتخابات کے ذریعے وجود میں آنے والی کسی بھی تنظیم کی مسلمہ جمہوری روایات کے بالکل برخلاف عمل ہے اور جو اے پی این ایس میں کچھ مخصوص لوگوں کی دائمی آمریت کا سبب ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس غیر منصفانہ تقسیم کو ہر سال اپنے من پسند ارکان سے مزید وسعت دی جارہی ہے ۔ اور یوں ووٹرز کے تناسب کو مستقل بنیاد پر ایک ٹولے کی جانب جھکا دیا گیا ہے جس سے اخباری اداروں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
الیکشن میں ”الیکشن” کے بجائے”سلیکشن” کا بدترین عمل ہر سال دُہرا دیا جاتا ہے۔ اے پی این ایس اس غیر منصفانہ انتخابی عمل کے نتیجے میں ایک مخصوص ٹولے کی مستقل باندی بن کررہ گئی ہے۔ جس سے تنظیم کے بنیادی مقاصد سے انحراف سامنے آرہا ہے اور یوں ارکان کے مفادات کے تحفظ میں مستقل ناکامی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اے پی این ایس پر ایک مستقل ٹولے کی اجارہ داری سے یہ تنظیم عملاً کچھ مخصوص گروپوں کی آلہ کار بن گئی ہے اور پرنٹ میڈیا کی واحد نمائندہ تنظیم کی حیثیت کھو چکی ہے۔
جس نے اخباری صنعت کے تقدس اور اس سے وابستہ ہزاروں لوگوں کے مستقبل کو خطرات سے دوچار کردیا ہے۔ ہرگزرتا ہوا دن اس بحران کو سنگین سے سنگین تر بنارہا ہے۔ مگر اے پی این ایس کے مخصوص ٹولے کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ نتیجتاً ایک غیر نمائندہ اور غیر آئینی انتخابی عمل نے دراصل ایک مخصوص نوعیت کی آمریت کو جنم دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اے پی این ایس پر غیر نمائندہ قابض ٹولہ دن بدن اختیارات کی تقسیم کے بجائے اس کے مزید ارتکاز کی جانب گامزن ہے۔یہ تمام عوامل واضح کرتے ہیں کہ اے پی این ایس ،ارکان کے مفادات کے تحفظ کے بجائے دراصل کچھ مخصوص لوگوں کے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی بن چکا ہے۔ جس سے اخباری صنعت کا احترام بھی متاثر ہورہا ہے۔ چنانچہ پرنٹ میڈیا کی معاشی اور پیشہ ورانہ مفادات کے مزید قتل عام سے اس تاریخی ادارے کو تباہی سے بچانے کے لیے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ اس کے غیر منصفانہ انتخابی عمل سے مکمل لاتعلق رہا جائے اور اس کے الیکشن کے بجائے سلیکشن کے نام نہاد کھیل کا بائیکاٹ کیا جائے اور غیر آئینی انتخابات کو بے نقاب کیا جائے۔قبل ازیں آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) کی جنرل کونسل کا سالانہ اجلاس 30مارچ2019ء کو حمید ہارون کی صدارت میںاے پی این ایس ہاؤس کراچی میں منعقد ہوا۔جس میں سال 2019-20ء کیلئے مجلس عاملہ کے ارکان کا انتخاب ہوا۔ مجلس عاملہ نے حمید ہارون (روزنامہ ڈان کراچی) کو صدر، رمیزہ مجید نظامی(روزنامہ نوائے وقت) کو سینئر نائب صدر،ممتاز اے طاہر نائب صدر ، سرمد علی سیکرٹری جنرل ،سید محمد منیر جیلانی جوائنٹ سیکرٹری اور شہاب زبیری کو فنانس سیکرٹری منتخب کیا ۔
(اس رپورٹ کے حوالے سے اگر اے پی این ایس کا کوئی ترجمان اپنا موقف دینا چاہے تو ہم اسے بھی ضرور شیئر کریں گے، علی عمران جونیئر)