تحریر: محمد نواز طاہر۔۔
ملک کے مختلف حصوں اور میڈیا ہاﺅسز سے کارکنوں کی تنخواہوں پر ایک بار پھر کٹ لگنے کی چہ میگوئیاں ، وسوسے خدشے اور خبریں گردش کررہی ہیں ۔ ساتھ ہی ساتھ ہمارے میڈیا کارنوں کے نئے ،پرانے لیڈر تشویش کا اظہار بھی کرتے ہیں اور اب ماننا شروع ہوگئے ہیں کہ کارکنوں اور میڈیا ہاﺅسز کے ان حالات تک پہنچنے میں خود میڈیا کارکنوں کا بھی کچھ نہ کچھ کردار بہر حال ضرور ہے۔ وہ یہ بھی ماننا شروع ہوگئے ہیں کہ کارکنوں کو صحافی کے بجائے اب کامے اور کمیں بھی بنادیا گیا یعنی کسی زمانے میں جوکام کامے ، کمیں کرتے تھے وہ اب صحافی کہلانے والے کارکن رہے ہیں ، بھلے کسی سیٹھ کی شادی کے کارڈوں کی تقسیم ہی کیوں نہ ہو، ابھی چند روز پہلے کی بات ہے کہ ایک قومی نشریاتی اور اشاعتی ادارے کے مالک نے ایک کارکن کی اس بنیاد پر اپنے حساب سے ’عزت افزائی ‘ کی کہ جن ایم پی اے صاحب کو دعوت نامہ نہیں پہنچا تھا انہوں نے سیٹھ سے گلہ کیا تو سیٹھ سیخ پا ہوگیا حالانکہ بہت سی جاگتی آنکھوں نے دیکھا اور سنتے کانوں نے سنا کہ وہ صاحب کس جانفشانی سے کارڈ بانٹ رہے تھے جبکہ شکوہ کرنے والے ایم پی اے صاحب اس سارے سیشن میں پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں شرکت سے پوری احتیاط کے ساتھ باہر رہے ۔۔۔
پریس کلب میں اس معاملے پر بحث ہوتی رہی کہ صحافی کہلانے والے معزز کو کارڈ تقسیم کرنے کی ةامی ہی نہیں بھرنا چاہئے تھی ، اگر حامی نہ بھرتے تو کم از کم ’عزت افزائی‘ سے بچ جاتے جس کے جواب میں ایک ساتھی نے بڑی ہمدردی جتائی اور بولے کہ اگر یہ حامی نہ بھرتے تو نوکری کیسے برقرار رہتی ؟ دوسرے صاحب بولے کہ نوکری کا یہ طریقِ کار درست نہیں ۔۔۔ خیر جتنے منہ اتنی باتیں ۔۔ ۔ اگلے روز معلوم ہوا کہ ایک صاحب اپنا شہر چھوڑ کر لاہور منتقل ہوئے تھے ، کچھ عرصہ تک گھریلو معاملات جیسے تیسے چلتے رہے لیکن تنخواہ پر کٹ لگنے اور بروقت تنخواہ نہ ملنے پر ازدواجی اور خانگی حالات مسئلہ کشمیر بن گئے ، یہ ایک دو یا تین چار کا مسئلہ نہیں ہے ، کم و بیش دیگر وسائل اور ’اپھل‘ نہ رکھنے والے میڈیا کارکنوں کی بڑی تعداد ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہے ، کچھ لوگ پہلے ہی واپس دیہات اور اپنے آبائی علاقوں کی طرف رُخ کرچکے ہیں ۔
لاہور پریس کلب کی لائبریری کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں ملک کے تمام پریس کلبوں سے زیادہ تعداد میں اخبارات آتے ہیں، ہم روزانہ کچھ اھباب کو دیکھتے ہیں جو اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کی اپنے موبائل فون سے تصاویر بناتے ہیں اور مختلف لوگوں کو بھیجتے ہیں ، ان میں کچھ لوگ تو اخبارات کے نیوز روم میں بیٹھے لوگوں سے مراسم محض کچھ خبروں کی اشاعت کی خاطر استوار اور برقرار رکھتے دکھائی دیتے ہیں ، یہ صحافیوں کا کام ہرگز نہیں ، یہ پی آر اوز کا کام ہے جو کسی دور میں صحافی اپنی شان کے منافی خیال کیا کرتے تھے لیکن جب کسی کو بروقت تنخوعاہ نہیں ملے گی تو وہ کیا کرے گا ؟ کراچی میں میری ایک میڈیا کارکن سے ملاقات ہوئی ، وہ پارٹ ٹائم کرائے پر ٹیکسی چلا کر گھر کا چولہا جلانے کے لئے کوشاں تھا ۔ ایسا ہی کچھ لاہور میںبھی ہورہا ہے ۔
تنخواہوں پر کٹ لگنے سے پریشان ایک ساتھی ایسے تھے جو پہلے کارکنوں کے نمائندے ہونے کے ساتھ ساتھ ایسی گفتگو بھی کرجاتے تھے جو کارکنوں کے مفاد میں نہیں ہوتی تھی بلکہ کسی اور کے مفاد میں باقاعدہ دلالت ‘ کا درجہ رکھتی تھی ۔ وہ دوست ا ب میری اس بات کو ماننا شروع ہوگئے ہیں کہ آزادی اظہار رائے کے تحفظ سے زیادہ اہمیت تحفظ، روزگارہے ، یہ بات میں نے پی ایف یو جے کی بی ڈی ایم میں بھی رکھا تھا جہاں آر آئی یو جے کے اصغر چودھری نے میرا ساتھ دیا تھا لیکن باقی لوگوں اسے سمجھنے کی کوشش نہیں کی تھی، جلد یا بدیر وہ بھی سمجھ جائیں گے لیکن تب تک بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا ہوگا ، ابھی بھی پی ایف یو جے کو اسی طرف دیکھنا ہوگا کہ اس وقت میڈیا انڈسٹری میں کہاں ، کیسے کیا کام کرنے کی ضرورت ہے ؟ صحافت تو رہی نہیں ، پھر آزادی صحافت کیا ہے ؟ صحافت کی آزادی سے یہ مراد کیسی لی جانا چاہئے کہ اگر کسی ادارے کو سرکار اشتہارات نہ دے تو کارکن سڑکوں پر نکل کھڑے ہوں ، کیا کارکنوں کی خبریں شائع ہوتی ہیں ؟ کیا آتھویں ویج بورد ایوارڈ پر عملدرآمد ہوگیا ہے ؟ کیا کارکنوں کو اپنی مرضی کے مطابق خبریں شائع اور نشر کرنے کی اجازت ہے ؟ اگر نہیں ہے تو آزادی اظہارِ رائے کی لڑائی کیسی ؟ اس سے تو سیدھی اور سادہ مراد یہ ہے کہ جس معاملے میں ریاست رکاوٹ ہو ، وہ رکاوت آزادی اظہارِ رائے کی راہ میں رکاوٹ ہے اور جہاں دیگر عناصر خبروں کی اشاعت اور بشریات روکنے کا سبب بنیں وہاںمکمل خاموشی اختیار کی جائے ؟ تو پھر پی ایف یو جے کس کی نمائندگی کررہی ہے ؟ پریس کلبوں اور یونین کے انتخابات میں میڈیا ہاﺅسز کے ’افسر‘ کیوں کار مختار بن ے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ؟
حالات کا دیانتداری سے جائزہ لیا جائے تو میڈیا ورکرز ہی اپنے مفادات کا تحفط نہیں کررہے ، کیا ووٹ کاسٹ کرتے وقت کوئی ان کے سر پر تلوار لیکر کھڑا ہوتا ہے ؟ بیلت پیپر کی موبائل فون سے تصویر بنا کر ’خواص‘ اور ’حکام ‘ کو دکھانے کی شرط اور پابندی پر خود میڈیا ورکرز کوئی لائحہ عمل تیار کیوں نہیں کرتے ؟ اپنی فہرستوں کو ’پاک‘ کیون نہیں کرتے ؟
تنخواہوں پر جس طرح سے کٹ لگے ہیں اور مستقبل میں مزید کٹ لگنے کی باتیں ہورہی ہیں خدا نخواستہ کل کو میڈیا کارکن کالی جیب دفتر جایا کریں گے اور خالی جیب آیا کریں گے ؟ تنخواہ کا تصور ختم ہوجائے گا پھر تھوڑی بہت صحافت کو حالتِ نزع میں ہے وہ بھی دم توڑ جائے گی تو دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ مزاحمت سے معذرت کرنے والے میڈیا کرکن بھی معاشرے کے مجرم ہونگے ۔ جہاں تک حکومتی اقدامات کی بات ہے تو یہ کونسا آئیڈیل معاشرہ اور حالات ہیں کہ حکومت صحافت کو پروموٹ کرے ؟ اپنی جھونپڑی کارکنوں کو خود بچانے کے لئے آگے بڑھنا ہوگا اور پی ایف یو جے کو اس کا ادراک کرتے ہوئے کارکنوں کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا جو درحقیقت قوم کے ساتھ کھرا ہونا ہے ۔ یہ بات میڈیا ہاﺅسز کے سیٹھ بھی سمجھنے کی کوشش کریں ورنہ کل کو ان سے زیادہ دولت وسائل اور طاقت رکھنے والے انہیں کچل کررکھ دیں گے اور پھر یہ بات راز نہیں کہ حلال کمائی سے میڈیا ہاﺅس نہ بنایا جاسکتا ہے اور نہ ہی چلایا جاسکتا ، تو پھر ’دوسری‘ کمائی والے کتنے لوگ ان کے حریف بنے کھڑے ہونگے اور قومی ادارے تاریخ کا حصہ( خدا نخواستہ ) بن جائیں گے۔(محمد نواز طاہر)۔۔
(بلاگر کی تحریر سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر۔۔)