تحریر: خرم شہزاد،،
کیا آپ نے کبھی جان کو رونے کا والا محاورہ سنا ہے؟ ایک انتہائی لاچار اور بے بس شخص کے لیے یہ الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں کہ سب کچھ تو اپنی طرف سے کر لیا اب بھلا وہ شخص کس کی جان کو روئے؟ کچھ ایسی ہی صورت حال اس وقت پاکستان میں ان لوگوں کی ہے جو صحافتی اداروں میں کیڑے مکوڑوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ ہمارے اور آپ کے لیے میڈیا اور چینلز کی چمک دمک ہی اصل چیز ہوتی ہے اور سوٹڈ بوٹڈ میک اپ زدہ چہرے جو اسکرینوں پر نظر آتے ہیں وہی سارا میڈیا اور سارا چینل ہوتے ہیں لیکن سارا سچ کبھی وہ نہیں ہوتا جو دیکھائی دیتا ہے۔ سچ کا بہت سا حصہ نظر نہیں بھی آتا اور میڈیا کا اصل سچ وہی ہے جو نظر نہیں آتا۔ نہایت کروفر سے ایک بڑی گاڑی سے اترتا ہوا اینکر جو سکرین پر چالیس منٹ تک بھاشن دینے کے بعد گاڑی میں بیٹھ کر واپس ہو جاتا ہے وہی آپ سب کے لیے سچ ہے لیکن یہ اصل سچ کا شائد دس فیصد بھی نہیں ہے کیونکہ چالیس منٹ کے اس بھاشن کے لیے نجانے کتنے رپورٹرز کہاں کہاں کس سردی یا گرمی میں فیلڈ میں ذلیل ہوتے ہیں آپ کو کیا پتہ؟ پھر ان رپورٹرز سے ملنے والی معلومات کو کہاں کہاں اور کس کس ذریعے سے ترتیب دیا جاتا ہے کون کون جملے لکھتا ہے، کیمرہ مین سے لائٹ اور سپاٹ بوائے تک، درجنوں افراد ایک ماحول بناتے ہیں جس میں ایک اینکر اپنے چالیس منٹ کے بھاشن کے لیے تشریف لاتا ہے اور آپ اسے ہی ساری دنیا سمجھ لیتے ہو۔ جیسے آپ نے ساہیوال حادثے کو پوری دنیا سمجھ لیا تھا کیونکہ وہ سوشل میڈیا کی چمک دمک میں وہ واقعہ آپ کے سامنے تھا لیکن کتنے ہی گھروں میں ملازموں کے ساتھ کیا کچھ ہوتا ہے کبھی کسی فیس بکی مجاہد کو اس پر رپورٹ یا پوسٹ لکھنے کی توفیق ہوئی؟ نہیں کیونکہ جو سامنے نہیں ہے وہ آپ کے لیے وجود ہی نہیں رکھتا ہے۔ شرجیل میمن اور شراب و شہد والے سارے کیس آپ کو پتہ ہوں گے لیکن انہی پاکستانی جیلوں میں کتنے لوگ برسوں سے صرف ایک پیشی کے منتظر ہیں، آپ کی جانے بلا کیونکہ وہ سب چمک دمک میں سامنے نہیں آتے۔ اسی طرح ہزاروں معاملات ہیں جن میں سامنے نہ آنے والے بیچارے کیڑے مکوڑوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے، نہ اپنے اداروں کے لیے اور نہ ہی ایسے لوگوں کے لیے جو حق اور انصاف کے پرچم اٹھائے انسانیت کے نعرے لگاتے مظلوموں کے حمایتی ہونے کے دعویدار ہوتے ہیں۔ انہی کیڑے مکوڑوں میں کچھ کو کل تک صحافی اور میڈیا کارکن کہا جاتا تھا اور چلتے اداروں میں انہیں انسان سمجھاجاتا تھا۔ یہ میڈیا کارکن اور صحافی جو کبھی انسان ہوتے تھے آج کیڑے مکوڑوں سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتے کیونکہ ان کے ساتھ کوئی بھی انسانی سلوک نہیں کیا جا رہا۔ آپ اگر اسے ہماری لفاظی سمجھتے ہیں جو چلیں تصویر کو قریب سے دیکھتے ہیں، شائد آپ کو بھی کچھ نظر آ جائے لیکن یاد رہے کہ یہاں چمک دمک کے بجائے اندھیروں میں رہنے والے معمولی صحافیوں کا ذکر ہو گا۔
کسی بھی شخص کو زندہ رہنے کے لیے روٹی کی ضرورت ہوتی ہے جو اسے روزی سے میسر آتی ہے۔ اسی روزی روٹی کے چکر میں سبھی کچھ نہ کچھ کرتے ہیں۔ صحافی بھی ایک عام شخص ہوتا ہے جو اپنی اور اپنے بیوی بچوں کی روزی روٹی کے لیے گھر سے نکلتا ہے۔ اگر اس سے روزی ہی چھین لی جائے اور روٹی کو بھی ترسا دیا جائے تو کیا کہا جائے گا۔ میڈیا چینلز کی بندش کی بھرمار نے سینکڑوں صحافیوں کی روزی پر نہ صرف لات ماری بلکہ ان کی روٹی بھی چھین لی جس کی حالیہ مثال آپ نیوز کی بندش ہے۔ یقینا آپ نیوز کے معاملات ایسے تھے کہ اسے ایک نہ ایک دن بند ہونا ہی تھا لیکن کام کرنے والے صحافیوں اور چھوٹے مزدوروں کا اس میں کیا قصور کہ آفتاب اقبال نے آنکھیں بند کی ہوئیں تھیں اور اس کا بھائی کروڑوں کما گیا اور فلاں فلاں معاہدے میں چینل کو پھنسا گیا؟ وہ لوگ جنہیں پیکج نہیں بلکہ صرف چند ہزارتنخواہ دی جاتی تھی، ان لوگوں سے ایسی کون سی غلطی ہوئی کہ ان کے معاوضے روک لیے گئے ہیں؟ اسی طرح دوسرے بہت سے میڈیا ہاوسز کے اندر بھی لٹ مچی ہوئی ہے کہ کارکنوں کو مہینوں سے باقاعدہ تنخواہ نہیں دی جارہی، کبھی کرونا، کبھی پاکستانی معیشت اور کبھی حالات کا رونا روتے ہوئے تنخواہیں روکنے اور قسطوں میں دینے کا نیا رواج بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔
آپ سوشل میڈیا ایکٹویسٹ ہیں، فیس بکی مجاہد ہیں، حق اور انصاف کی آواز کہلانے والے لوگ ہیں، حکومت اور اداروں کی کرپشن اور دھاندلیوں پر بولنے، لکھنے اور طوفان اٹھانے والے ہیں، آپ خود کو نئے دور کے ٹرینڈ سیٹر کہتے ہیں اور آپ لوگوں کا خیال ہے کہ آپ کسی بھی تبدیلی اور نا ممکن کو ممکن بنا سکتے ہیں تو پھر سوال یہ ہے کہ آپ میڈیا کی چمک دمک کے پیچھے دیکھنے کی اہلیت کیوں نہیں رکھتے؟ آپ میڈیا ہاوسزمیں ہونے والے ظلم اور ناانصافیوں پر آواز کیوں نہیں اٹھاتے؟ کارکنوں کو ان کے پورے اور بروقت معاوضوں کے لیے کوشش کیوں نہیں کرتے؟ آپ ان چھوٹے صحافیوں اور کارکنوں کے گھروں میں جا کر کیوں تصدیق نہیں کرتے کہ ہاں ان کے بیوی بچے بھی انسان ہی ہیں اور مٹی چاٹ کر گزارہ نہیں کر سکتے، ان کے پیٹ روٹی اور تن بدن کپڑا مانگتے ہیں۔
سوٹڈ بوٹڈ اینکروں سے پرے اور چمک دمک والے میڈیا ہاوسز کی تاریکیوں میں بہت سے چھوٹے صحافی اور میڈیا کارکن ایسے ہیں جن سے کیڑے مکوڑوں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے، خدارا ان کی آواز بنیں، وہ بھی انسان ہیں انہیں ان کا مقام واپس دلوائیں۔ ان کے واجبات اور معاوضوں کے لیے آواز اٹھائیں۔ یاد رہے کہ اگر آج اس معاشرے میں کسی بھی ایک طبقے کو اس کی جدوجہد میں اکیلا چھوڑا گیا تو اس کا نتیجہ آنے والے کل میں سبھی کو بھگتنا پڑے گا کیونکہ پھر ہر طبقے کو اپنی لڑائی ذاتی طور پر ہی لڑنی پڑے گی اور کوئی کسی دوسرے کے لیے آواز نہیں اٹھائے گا۔ اس سے پہلے کہ ایسا کچھ ہو، آگے بڑھیں اور ان کے لیے آواز اٹھائیں جو کل تک آپ کی آواز بنتے رہے ہیں اور آنے والے کل میں بھی آپ کی آواز ہو سکتے ہیں۔(خرم شہزاد)۔۔