سینئر صحافی، کالم نویس اور تجزیہ کار رؤف کلاسرا ان دنوں امریکا کے دورے پر ہیں، دنیانیوز میں اپنے تازہ کالم میں وہ لکھتے ہیں کہ ۔۔ ایک نوجوان نے مجھ سے پوچھ لیا کہ آپ مقتدرہ کو گالی کیوں نہیں دیتے؟ میں نے اس کی طرف دیکھا اور کہا: ایک صحافی جب ٹی وی پر بیٹھا ہو یا اخبار میں لکھتا ہو تو اسے مناسب الفاظ میں تنقید کرنی ہوتی ہے۔ میری صحافیانہ تربیت پرنٹ میڈیا سے ہوئی تھی جہاں ایک ایک لفظ کو کم از کم تین چار سینئر لوگ مختلف مراحل پر چیک کرتے تھے۔ پہلے شخص کی کوشش ہوتی تھی کہ ایک ہزار الفاظ کی سٹوری کو پانچ سو الفاظ تک لانا ہے‘ جسے ہم ایڈیٹنگ کہتے ہیں۔ اس کے بعد وہ سٹوری دوسرے کے پاس جاتی اور وہ اس میں سے مزید پچاس‘ سو لفظ کم کردیتا۔ جس نے وہ سٹوری فائنل کرنی ہوتی تھی وہ اس میں سے مزید غیرضروری الفاظ نکالنے کی کوشش کرتا۔ اخباری صحافت میں ایک ایک لفظ پر بڑی توجہ دی جاتی ہے کہ آپ کیا لکھ رہے ہیں کیونکہ ایک دفعہ تحریر یا خبر چھپ گئی توپھر وہ آپ کی نہیں رہی اور اس کے نتائج ہوتے ہیں۔ اس طرح پرنٹ میڈیا سے جو لوگ ٹی وی شوز کی طرف آئے وہ لاکھ ریٹنگز کے لیے اپنا لہجہ یا زبان بگاڑنا چاہیں‘ وہ اب بھی پروفیشنل انداز میں بات کہنے کی کوشش کرتے ہیں۔وہ آج بھی خبر کو خبر کی طرح پیش کریں گے اور اپنے سیاسی تجزیہ میں مناسب لہجہ اختیار کریں گے۔وہ مزید لکھتے ہیں کہ ۔۔آج کل پاپولرازم کے دور میں اپنی زبان اور لہجے کو کنٹرول کرنا بہت مشکل ہے۔ اگر آپ زبان پر کنٹرول کرتے ہیں تو لوگوں کو لگتا ہے آپ ڈر گئے ہیں۔ وہ آپ کے لہجے میں سے دلیل یا منطق تلاش کرنے کی کوشش نہیں کرتے کہ بات میں وزن ہے یا نہیں۔ وہ آپ کے لہجہ پر غور کرتے ہیں کہ آپ کے منہ سے کسی پر تنقید کرتے وقت جھاگ نکل رہی ہے یا نہیں اور آنکھیں باہر کو نکلی ہوئی ہیں اور سرخ ہورہی ہیں تو آپ واقعی بہت بڑے صحافی اور یوٹیوبر ہیں۔ پچھلے چند سالوں سے یہ رجحان بڑھ گیا ہے۔ نوجوانوں نے سوشل میڈیا جوائن کیا اور خود کو راتوں رات مشہور کرنے کے لیے جس طرح کا لہجہ اور جارحانہ انداز اختیار کیا‘ اس نے لوگوں کے ذہن میں امیج بنا دیا ہے کہ اگر آپ نے اپنے پروگرام یا ویلاگ میں گالی نہیں دی تو آپ صحافی نہیں ۔ مجھے ایک صاحب کہنے لگے کہ آپ فلاں فلاں صاحب کی طرح گفتگو کیوں نہیں کرتے؟ میں نے کہا: اچھا ہے کوئی اور بندہ وہ گفتگو کررہا ہے جو آپ کو اچھی لگتی ہے اُسے سنا کریں۔ آپ ہر ایک سے توقع کیوں رکھتے ہیں کہ جو آپ کا فیورٹ بندہ گفتگو کرتا ہے اس طرح دیگر لوگ بھی کریں۔ میں بھی تو شکایت کرسکتا ہوں کہ جو گفتگو میں کرتا ہوں‘ وہ گفتگو فلاں صاحب کیوں نہیں کرتے۔ جیسے آپ کہہ رہے ہیں کہ مجھے ان کی طرح باتیں کرنی چاہئیں تو میں بھی کہہ سکتا ہوں کہ وہ میری طرح گفتگو کیوں نہیں کرتے؟