likhne walo ke masail | Hammad Raza

اپنے بچوں کو خود حفاظت کرنا سکھائیں

تحریر۔حماد رضا

بچوں کے ساتھ زیادتی کی خبریں تواتر سے اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں اور ہم میں سے اکثر قارئین ایسی خبروں میں خاص دلچسپی بھی لیتے نظر آتے ہیں کیوں کے زیادتی کا شکار ہونے والا بچہ یا بچی ہمارے گھر یا خاندان کا کوئ فرد نہیں ہوتا بد قسمتی سے ہم ایسی خبروں کو پڑھنے کی حد تک ہی اہم سمجھتے ہیں چند لمحوں کے لیے ہماری طبیعت میں تھوڑا جذباتی پن بھی آتا ہے ہم سوشل میڈیا پر جا کے اپنا تھوڑا بہت ابال بھی نکال لیتے ہیں لیکن پھر واقعہ ہماری عقلِ سلیم سے محو ہو کر قصہ ماضی بن جاتا ہے اور پھر ایک دوسرا واقعہ رونما ہونے کا انتظار کیا جاتا ہے ایسے تمام کیسسز میں اگر دیکھا جاۓ تو پولیس کا کردار ملزم کو گرفتار کر کے عدالت سے سزا دلوانا ہوتا ہے لیکن ایسے بھیانک واقعات کے بعد متاثرہ بچی یا بچے کے روح پر لگے زخم نا ہی مجرم کے سزا بھگتنے سے مندمل ہوتے ہیں اور نا ہی ان کا مداوا دنیا کا کوئ بہترین ڈاکٹر کر سکتا ہے لہذا اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس قسم کے واقعات رونما ہونے سے پہلے ان کی روک تھام کے لیے اقدامات کریں  یہ ایک دو طرفہ عمل ہے اگر ہم بچوں کو جنسی تعلیم دینے کی بات کرتے ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے والدین کو اس بارے میں مناسب آگاہی ہو انھیں کم از کم یہ پتہ ہو کے بچے کو کس سے خطرہ ہو سکتا ہے کب ہو سکتا ہے اگر ہم یہ بنیادی باتیں جان لیں تو ایسے واقعات میں خاطر خواہ کمی لائ جاسکتی ہے اس سلسلے میں والدین سے میں چند گزارشات کرنا چاہوں گا اکژ دیکھنے میں آیا ہے کہ گھر میں موجود بہت چھوٹے بچوں کو دوکان پر سودا سلف لینے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے ہمارے معاشرے میں ایک نہایت کم عمر بچے کو بد قسمتی سے مرد سے تشبیہ دے کر اسے ہر قسم کے خطرات کے لیے آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ نومولود مرد  دو چاکلیٹس کے عوض محلے کے کسی دوکاندار کی ہوس کا نشانہ بن جاتا ہے دوسرے نمبر پر دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ انتہائ پڑھے لکھے گھرانوں کے بچوں کو بھی کم عمری میں کسی گلی محلے کی نکڑ والی مسجد میں دینی تعلیم کی غرض سے کسی مڈل پاس قاری کے رحم وکرم پر تن تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے بچہ تو اس عمر میں ہوتا ہے کہ وہ یہ بھی بتانے سے قاصر ہے کہ اس کے ساتھ ہوا کیا ہے بچے کی دینی تعلیم کا اہتمام گھر پر بہتر طور پر کیا جا سکتا ہے اکثر والدین اپنے بچوں کو تن تنہا اپنے کسی ملازم چوکیدار یا کسی باورچی کے سپرد کر کے خود کسی تقریب میں جانے کو ترجیح دیتے ہیں ملازم پر اس لیے اعتماد کر لیا جاتا ہے کہ بھائ یہ تو ہمارا سالوں سے نمک خوار اور وفا دار ہے اس سے بھلا بچے کو کیونکر خطرہ ہو سکتا ہے ایسے کیسسز میں بچہ وقتاً فوقتاً زیادتی کا نشانہ بنتا رہتا ہے اور شدیدذہنی اور جسمانی کرّب سے گزرتا ہے بہت سے والدین اپنے بچوں کی ٹیوشن کا گھر پر اہتمام کرتے ہیں  اور جس کمرے میں بچہ ٹیوشن پڑھ رہا ہوتا ہے اس طرف تمام گھر والوں کو جانے سے منع کر دیا جاتا ہے حتی کہ کمرے میں جھانکنے تک کی احتیاط کی جاتی ہے کہ کہیں خدا نخواستہ ہمارا بچہ پڑھتے ہوۓ ڈسٹرب نا ہو جاۓ یہ وہ بے احتیاطیاں ہیں جن کی وجہ سے ہم ان شیطان صفت لوگوں کو خود اپنے گھر نقب لگانے کا موقع فراہم کرتے ہیں جتنا آپ اپنے بچے کا خود خیال رکھ سکتے ہیں اتنا کوئ  اور نہیں رکھ سکتا آپ سے بہتر آپ کے بچے کا کوئ مددگار نہیں اور بطور والدین ہمیں  اپنے بچوں سے ایسے معامعلات ڈسکس کرنے کی گنجائش رکھنی ہوگی   اور ان خطرات سے متعلق ان کو آگاہ کرنا ہو گا بچوں کو اس قابل بنانا ہو گا کہ وہ اپنی حفاظت خود کر سکیں۔(حماد رضا)۔۔

انسٹاگرام  اب فیس بک جیسا فیچر متعارف کرائے گا۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں