سینئر صحافی، کالم نویس اور اینکرپرسن رؤف کلاسرا کا کہنا ہے کہ ۔۔ہر روز نئی بات ہوتی ہے اور ہمیں لگتا ہے اب اس سے زیادہ نیا کیا ہو سکتا ہے۔ لیکن چوبیس گھنٹے بعد ہم غلط ثابت ہوتے ہیں اور اس سے بھی بڑا کام یا بڑی واردات ڈالی جا چکی ہوتی ہے۔ اب تو ہم نے ان ایشوز کا شمار رکھنا بھی چھوڑ دیا ہے جنہوں نے ہمیں دن رات بے چین کیے رکھا تھا۔ لوگ دھیرے دھیرے بے حس ہوتے گئے اور کوئی خبر اب خبر نہیں رہی۔ اگر کبھی خبروں کی اہمیت دیکھی تھی تو وہ اخبار کا دور تھا۔ ایک خبر چھپتی تھی تو پورے شہر میں آگ لگ جاتی تھی۔ میں نے خبروں سے حکومتی ایوانوں اور وزیروں کو کاپنتے ہوا دیکھا ہے۔ وزیر کو فکر ہوتی تھی کہ کہیں وزارت نہ چلی جائے جبکہ وزیراعظم کو ٹینشن ہوتی تھی کہ کہیں ان کی حکومت کا امیج اتنا نہ بگڑ جائے کہ اپوزیشن صدر کے ساتھ مل کر ان کی حکومت کا تختہ نہ الٹ دے اور کل کلاں کو وہ جیل میں بیٹھے مقدمات بھگت رہے ہوں۔ اسی ڈر کی وجہ سے حکمرانوں نے ہر جگہ اپنا بندہ بٹھانے کا فیصلہ کیا تاکہ کوئی ان کے آرام میں مخل نہ ہو۔ اپنا صدر ہونا چاہیے‘ اپنا آرمی چیف‘ اپنا چیف جسٹس‘ اپنا انٹیلی جنس چیف‘ اپنا صحافی‘ اپنا اینکر‘ اپنا کالم نگار۔ ہر جگہ اپنا بندہ لگا کر بھی وزیراعظم نہ حکومتیں بچا سکے‘ نہ ان کا جیل جانا بند ہوا۔دنیانیوزمیں اپنے تازہ کالم میں رؤف کلاسرا تحریر کرتے ہیں کہ ۔۔عدالتوں میں بھی ایک دور تھا کہ جج حکومتیں ہی لگاتی تھیں۔ وہ فیصلہ کرتی تھیں کہ کون چیف جسٹس لگے گا۔ یہ سوچ کر ہی بینظیر بھٹو نے سجاد علی شاہ کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس لگایا کہ وہ سندھ سے ہے‘ اپنا بندہ ہے۔ اس نے نواز شریف حکومت کی بحالی کے خلاف رائے دی تھی لہٰذا ہمارا وفادار بن کر رہے گا۔ بعد ازاں اسی سجاد علی شاہ نے فاروق لغاری کے بینظیر حکومت ختم کرنے کے فیصلے کو درست قرار دیا۔ بینظیر بھٹو فاروق لغاری کو صدر اور سجاد علی شاہ کو چیف جسٹس لگا کر مطمئن تھیں کہ اب ان کے ساتھ چھ اگست 1990ء والا کام نہیں ہوگا مگر صدر غلام اسحاق اور آرمی چیف اسلم بیگ نے ان کی حکومت گھر بھیج دی۔نواز شریف اس معاملے میں سب سے زیادہ حساس تھے بلکہ انہوں نے ہی یہ روایت شروع کی کہ ہر جگہ اپنا بندہ ہونا چاہیے ۔ وہ سرکاری افسران کی غیر جانبداری کے قائل نہ تھے۔ یوں ہر جگہ سیاسی عہدیدار بیٹھ گئے اور نتیجہ یہ نکلا کہ ہر پارٹی نے یہ روٹ لیا کہ جب بھی انہیں اقتدار ملا تو ہر جگہ ان کے اپنے بندے ہوں‘ ورنہ انہیں کوئی حق نہیں کہ وہ کسی عہدے پر رہیں۔ اگر مجھ سے پوچھیں تو پاکستان کو اسی سوچ اور اسی کلچر نے تباہ کیا۔ بیورو کریٹ بھی سیانے نکلے اور انہوں نے بھی ریاست کے بجائے حکمرانوں سے وفاداری کا حلف لے لیا۔ اب سب ادارے ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو چکے ہیں اور کسی کی عزت محفوظ نہیں رہی۔ ہر کوئی دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے تو کھل کر کہہ دیا کہ سیاسی انجینئرنگ ہوتی رہی ہے اور اب بھی ہو رہی ہے۔ اس کے بعد تو ہم حیرت سے انگلیاں ہی منہ میں داب سکتے ہیں۔ جس طرح چھ ججوں نے خط لکھا اور اب ایک جسٹس اطہر من اللہ بھی اس بات کی کنفرمیشن کر رہے ہیں‘ تو اس کے بعد مزید کیا کہا جا سکتا ہے۔