تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،عید قرباں گزرگئی، عید قرباں کے بعد شہریوں کی بڑی تعداد بسیار خوری کی وجہ سے مختلف اسپتالوں میں پہنچ گئی، زیادہ تر مریض معدے کی جلن، السر اور فوڈ پوائزنگ میں مبتلا ہیں۔ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں شہریوں کو عید کے دنوں میں بسیار خوری مہنگی پڑ گئی، ہزاروں مریض اسپتال پہنچ گئے۔ عید کے2 دونوں میں شہر کے 7 بڑے اسپتالوں میں معدے کی تکالیف و ڈائریا کے 18 ہزار سے زائد مریضوں نے اسپتالوں کا رخ کیا۔لاہور کے میو اسپتال میں 33 سو، جناح اسپتال میں 3 ہزار، جنرل اسپتال میں 29 سو، سروسز اسپتال میں 26 سو اور گنگا رام اسپتال میں 23 سو اسپتال مختلف امراض کا شکار ہو کر پہنچ گئے۔اسی طرح شاہدرہ اسپتال میں 18 سو، گورنمنٹ میاں میر اسپتال میں 15 سو، نواز شریف اسپتال میں 13 سو اور کوٹ خواجہ سعید اسپتال میں 12 سو مریض رپورٹ ہوئے۔اسپتال انتظامیہ کے مطابق زیادہ تر مریض انٹریوں میں انفیکشن، معدے کی جلن، السر اور فوڈ پوائزنگ میں مبتلا ہیں، بیماریوں کی بڑی وجہ قربانی کا گوشت جلدی پکانا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ شہری کھانوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے بسیار خوری سے گریز کریں۔ کالے یرقان، یورک ایسڈ، گردوں، جوڑوں کے مریض اور معدے کی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کے لیے گوشت کا زیادہ استعمال خطرناک ہوتا ہے۔ عیدختم لیکن گوشت ہضم نہیں ہوسکا۔ذخیرہ اندوزوں کو گالیاں دینے والی قوم کے فریج اب تک گوشت سے بھرے ہوئے ہیں۔ ۔بلکہ فریجوں اور ڈیپ فریزرز کا یہ حال ہوچکا ہے کہ برف کی جگہ اب گوشت ہی گوشت ہے، اس عید پر آموں کے ساتھ بھی سوتیلے پن کا سلوک کیاگیا، گوشت کے لیے آموں کو فریج سے باہرنکال دیاگیا۔۔باباجی نے اس عید پرہمیں دیکھتے ہی برجستہ یہ شعر کہا۔۔ہونٹوں پہ ہنسی، دل میں تھوڑا غم ہے،کیا آپ کے گھر بھی چھوٹا گوشت،بڑے گوشت سے کم ہے۔۔۔؟باباجی نے عید سے قبل اپنے سوشل پیچز پر یہ اسٹیٹس لگایاتھا کہ ۔۔کے الیکٹرک اور واپڈا والوں سے گزارش ہے کہ عید کے 3 دن بجلی بند رکھیں تاکہ قربانی کا گوشت فریجوں کی بجائے مستحق لوگوں تک پہنچ سکے۔باباجی فرماتے ہیں کہ ۔۔جولوگ گوشت کھاتے وقت داخلہ پالیسی پر دھیان نہیں رکھتے بعد میں ان کی خارجہ پالیسی خودمختار ہوجاتی ہے۔ ۔یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ اب اگلے ایک ماہ تک ہماری قوم اپنے گھروں میں آلو گوشت، بھنڈی گوشت، ٹنڈے گوشت، لوکی گوشت، بریانی، پلاؤ، کریلا گوشت، دال گوشت، ایسا گوشت ، ویسا گوشت اور صرف گوشت ہی گوشت پکائے گی، بلکہ ہمارے علم میں تو یہ یہاں تک ہے کہ کچھ لوگ قربانی کے بچے ہوئے گوشت سے ہی محرم الحرام میں حلیم کی نیاز بھی دیتے پائے جاتے ہیں۔۔باباجی کا ہی فرمان ہے کہ، جانور تو ایک دن قربان ہوتا ہے،خواتین توتب تک قربانی دیتی ہیں جب تک فریزر سے جانور غائب نہیں ہوجاتا۔۔عید پر ملک بھر میں قربانی دی جاتی ہے، عید کے پہلے دن جب ہم نے کراچی کا سروے کیا تو یہاں کی سڑکیں، محلے اور گلیاں بتارہی تھیں کہ مسلمانوں کا آدھا ایمان تو ہاتھ سے نکل چکا ہے۔۔باباجی نے اپنے چاہنے والوں کو مشورہ دیا ہے کہ اتنا گوشت نہ کھائیں کہ اندر بوٹیاں آپس میں مل کر دوبارہ سے بکرا بن جائے۔۔ گوشت کھانے سے جن لوگوں کے معدے میں تکلیف ہے باباجی نے ایسے لوگوں سے کہا ہے کہ ۔۔قربانی کا بے تحاشا گوشت کھانے کے بعد اگر آپ کے پیٹ میں درد ہوتا ہے تو قصور آپ کا ہے نہ آپ کے معدے کا، بلکہ وہ جانور ہی ٹکریں مارنے والاتھا جس کا آپ نے گوشت کھایا ہے۔۔ویسے بھی عید کے تین دن قصائیوں کے ہوتے ہیں تو عید کے بعد ڈاکٹروں کی دیہاڑیاں لگتی ہیں۔۔ ایک سو سال کے بزرگ سگریٹ پی رہے تھے۔کسی صحافی نے سوال کیا بابا جی کیوں پیتے ہیں؟ اِس سے پھیپھڑے خراب ہوتے ہیں! آدمی جلدی مرجاتا ہے ۔۔بزرگ بولے کیا کروں بیٹا عادت پڑ گئی ہے پی بنا چین نہیں آتا ۔صحافی نے کہا۔آپ کو کوئی ٹوکتانہیں؟؟ باباکہنے لگے۔۔ کیا بتاؤں بیٹا جو لوگ ٹوکا ٹاکی کرتے تھے وہ سب اوپر چلے گئے ، آج بہت دنوں بعد تُم نے ٹوکا ہے۔اپنا دھیان رکھنا۔۔کراچی میں آج سے بارشوں کی پیش گوئی ہے، محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ دو دن بارش ہوگی۔کراچی میں بارش ہونا ایسا ہی ہے جیسے لاہور میں کوئی اچھی بریانی پکا لے ،اسلام آباد میں کوئی مقامی باشندہ نظر آجائے ،فیصل آباد میں کوئی سنجیدہ انسان نظر آجائے ،پشاور میں چاند اصل وقت میں نظر آجائے ،کوئٹہ میں کوئی ہفتہ میں اک بار ہی سہی پر نہا لے ،اٹک میں کوئی بنا ’’پیش‘‘ لگائے اردو بول لے ،جیسے میانوالی میں کوئی عطااللہ کے گانے پر روتا ہوا نا نظر آئے،راولپنڈی میں کوئی بنا پیلی پینٹ اور سرخ شرٹ کے بوائے نکل آئے ،جیسے ہزارے میں کوئی بنا’’اجے دیوگن ‘‘ والی پف کے نظر آجائے ،جیسے کشمیر میں کوئی بنا لمبی ناک والا انسان نظر آجائے ہاں بھائی اور کسی کو کراچی والوں کے بارش سیلیبریٹ کرنے پر اعتراض ہو تو حاضری لگوا لے۔۔ سائنس نے بہت تیزی سے ترقی کرلی ہے،لاہور سے ایک صاحب نے ٹرین سے اسلام آباد جانا تھا لیکن وہ غلطی سے کراچی ٹرین پہ سوار ہوگئے،رش کی وجہ سے سیٹ نہ ملی تو ایک خالی برتھ پہ لیٹ گئے،ٹرین چل پڑی، بوریت سے بچنے کے لیے صاحب نے نیچے سیٹ پہ بیٹھے ایک بندے سے بات کا آغاز کرتے ہوئے پوچھا۔۔بادشاہو! کہاں جار ہے ہو؟؟ نیچے والا بندہ بولا۔۔کراچی۔۔صاحب حیران ہوکے بولے، بلے وئی سائنس دی ترقی! اتے آلے لاہور تے تھلے آلے کراچی جارہے نیں(کمال سائنسی ترقی ہے! اوپر والے لاہور اور نیچے والے کراچی جارہے ہیں)۔۔ہم کراچی ائرپورٹ پرتھے،اسلام آباد جاناتھا،اچانک ہمارے کانوں میں اعلان گونجا،پی آئی اے کے کاونٹر پر اعلان ہو رہا تھا۔۔کسی صاحب کا آلہ سماعت کاونٹر پر رہ گیا ہے،اگر وہ صاحب سن رہے ہوں تو آ کر لے جائیں۔اگر آن لائن بینکنگ نہ ہوتی تو لوگوں نے کرونا کے ڈر سے اپنے پیسے تک واپس نہیں لینے تھے۔۔ٹیکنالوجی تیرا شکریہ۔۔ اوراب چلتے چلتے آخری بات۔۔جب کوئی شخص پہاڑ کے اوپر چڑھتا ہے تو اس کا سر اور جسم ذرا سا آگے کی طرف جھکا ہوتا ہے لیکن پہاڑ سے اترتے ہوئے سر زرا سا پیچھے کی طرف جسم اکڑا ہوا۔۔ تو جب کسی انسان کو جھک کر چلتا ہوئے دیکھو تو سمجھ لو وہ کسی بلند مقام، مرتبے، ترقی، بزرگی، بلندی کی طرف گامزن ہے، اور اگر کسی کو اکڑ کر چلتا دیکھو تو جان لو یہ زوال کی طرف جارہا ہے،پہلے والے کی پیروی کرو، دوسرے سے عبرت حاصل کرو۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔