خصوصی رپورٹ
خیبرپختونخوا میں ایک وزیر نے کروڑوں کے اشتہار اپنے ہی اخبار کو جاری کردیئے،وزیر بدستور اخبار کے مالک ہیں اور اس اخبار کے لئے اشتہارات میں اضافہ وزیر بننے کے بعد ہوا۔روزنامہ جنگ نے دستاویزات کے حوالے سے بتایا کہ حقیقی سرکولیشن کے حو الے سے کسی رپورٹ اور جانچ پڑتال کے بغیر اشتہارات کے نرخوں میں اضافہ کیا گیا۔ دوسری جانب وزیر کا کہنا ہےکہ حکومتی اشتہاری پالیسی میں ان کا کوئی کردار نہیں ہے،مذکورہ اخبارکو کوئی سہولت یا ترجیح نہیں دے گی۔واضح رہے کہ خیبرپختونخوا کے ایک بڑے اخبار کو دعوے کے مطابق میرٹ کی بنیاد پر سرکاری اشتہارات دیئے گئے حالانکہ پاکستانی ذرائع ابلاغ اس وقت شدید مالی بحران کا شکار ہیں لیکن پشاور کا ایک غیر معروف اخبار زبردست کاروبار کررہا اور منافع میں جارہا ہے۔اسے اپنے مالک صوبائی وزیرکی جانب سے 5؍ کروڑ 74؍ لاکھ 20؍ ہزارروپے کا ریکارڈ بزنس ملا۔خیبرپختونخوا حکومت کی میڈیا لسٹ میں 108؍ اخبارات کے نام درج ہیں اور صوبائی حکومت نے مذکورہ اخبار کیلئے اشتہارات کا نرخ 457.31 روپےفی سینٹی میٹر مقرر کیا۔
اخبار جس کی اپنی ویب سائٹ تک نہیں ہے ،اسے خیبرپختونخوا حکومت نے اگست 2018ء تا جولائی 2019ء دو کروڑ 31؍ لاکھ 20؍ ہزار روپے مالیت کے اشتہارات جاری کئے جن کا حجم 48؍ ہزار سینٹی میٹرز بنتا ہے جبکہ 2014ء سے 2018ء تک کے عرصہ میں مذکورہ اخبار کو 3؍ کروڑ 43؍ لاکھ روپے مالیت کے اشتہارات جاری ہوئے۔صوبائی وزیر نے اخبار کی ملکیت سے انکار کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ مذکورہ اخبارکو کوئی سہولت یا ترجیح نہیں دے گی تاہم سرکاری دستاویزات سے تصدیق ہوتی ہے کہ انہوں نے پبلشنگ حقوق اپنے بھائی کو منتقل کردیئے تھے۔ لیکن پرنٹنگ حقوق بدستور ان کے پاس ہی ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں ایک قانون کے تحت سرکاری فرائض اور نجی مفادات میں ٹکرائو سےبچنے کی ہدایت موجودہے اور صوبائی وزیر اس قانون کی مسلسل خلاف ورزی کے مرتکب ہورہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق وزیر کا کہنا ہےکہ ا ن کا اب اخبار سے کوئی تعلق نہیں اخبار کا ڈیکلریشن وہ اپنے بھائی کے حو الے کرچکے ہیں۔ تاہم سرکاری ریکارڈ وزیر کے اس دعوے کی نفی کرتا ہے۔2018ء کے عام انتخابات کے بعد مذکورہ اخبار کیلئے سرکاری اشتہارات کے نرخ 388.71روپے فی سینٹی میٹرز سے بڑھا کر 457.31روپے فی سینٹی میٹرز کئے گئے۔رابطہ کرنے پر صوبائی وزیرنے اس بات کی تردید کی کہ انہوں نے اپنا اثر و رسوخ بروئے کار لاکر اخبار کے لئے اشتہارات کے نرخ بڑھائے۔انہوں نے کہا کہ اشتہارات کے نرخ پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ (پی آئی ڈی) طے کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا کے خیبرپختونخوا میں ضم ہونے کے بعد اشتہارات کے نرخوںمیں اضافہ ایک وجہ ہوسکتی ہے۔اخبارخیبرپختونخوا میں صف اول کے اخبارات میں سے ایک تھا، اے این پی حکومت کے دور میں اس کے اشتہارات بند ہونے، اسے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا اخبار میں اشتہارات کے نرخ دیگر کے مقابلے میں اب بھی کچھ زیاد ہ نہیں ہیں۔مفادات کے ٹکرائو سے تحفظ کے ایکٹ 2016ء کے حوالے سے صوبائی وزیر نے کہا وہ کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کررہے کیونکہ وہ مذکورہ اخبار کے مالک ہی نہیں رہے۔جب ان سے پوچھا گیا کہ دستاویزات کے تحت انہوں نے اشاعتی حقوق اپنے بھائی کو منتقل کئے اور پرنٹنگ حقوق بدستور ان کے پاس ہی ہیں۔ اس پر وہ مشتعل ہوگئے اور یہ کہہ کر ٹیلی فون بند کردیا کہ ’’جو چاہتے ہو لکھو‘‘۔ دریں اثنامحکمہ اطلاعات خیبر پختونخوا نے اس خبر کی سختی سے تردید کردی جس میں کہا گیا تھا کہ ایک وزیر نے اپنے ہی اخبار کو بھاری رقوم کے اشتہار جاری کردیئے اور اسے یا تو رپورٹر کے تخیلات کی پیداوار یا کسی کی طرف سے صوبائی حکومت کے امیج کو خراب کرنے کی سوچی سمجھی کوشش قرار دیا ہے۔روزنامہ جنگ کے مطابق ایک تردیدی بیان میں صوبائی محکمہ اطلاعات نے اس امر پر حیرانگی ظاہر کی ہے کہ ایک مشہور بین الاقوامی اخبار کو اس طرح کی بے بنیاد اور غلط معلومات اکٹھی کرنے ، الفاظ کی ہیرا پھیری کرنے ، غلط اعداد وشمار پیش کرنے ا ور حقائق کو مسخ کرکے اپنے قارئین کو گمراہ کرنے کی ضرورت کوکیوں پیش آئی ہے جبکہ محکمہ اطلاعات میں اشتہارات کی تقسیم کار کا ایک منظم اور شفاف میکنزم موجود ہے۔ خبر میں رپورٹر نے دعوی کیا ہے کہ نگران دور حکومت میں صوبائی وزیر اطلاعات کے بھائی کے اخبار کو کم اشتہارات ملے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نگران دور حکومت میں عموماً مجموعی طورپر اشتہارات کا بہاو کم ہوتا ہے کیونکہ نگران حکومت کے پاس صرف انتخابات کے شفاف انعقاد کا اختیار ہوتا ہےکوئی ترقیاتی منصوبہ شروع کرنے کا اختیار نہیں ہوتا جس کی وجہ سے سرکاری اشتہارات کا مجموعی بہا وکم ہوتا ہے نتیجتاً کسی ایک اخبار نہیں بلکہ تمام اخبارات کے اشتہارات کم ہوتے ہیں۔ محکمہ اطلاعات نے صوبائی وزیر کے بھائی کے اخبار کو جاری کئے گئے اشتہارات کے حجم سے متعلق اعداد وشمار کی تردید کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ مذکورہ اخبار سرکاری اشتہارات کے حجم کے حوالے سے اپنے ہم پلہ ا ور ہم عصر اخباروں سے بہت پیچھے ہے اور یہاں تک کہ صوبے کے ایک بڑے اخبارکو مذکورہ اخبار سے چھ گنا زیادہ اشتہارات ملتے ہیں۔(خصوصی رپورٹ)