تحریر: شکیل بازغ
یہ کس نے کہا تھا صحافت عبادت ہے؟ آواز بنتی ہے مظلوم عوام کی اور کچے چٹھے کھولتی ہے مجرموں کے بھلے وہ اہل ایوان ہوں نام نہاد اہل ایمان ہوں یا کوئی بھی ہو سیہ کار، اسے راہ راست پر لانے کیلئے اس کے تذکرے علی الاعلان کرتی ہے۔
بھئی میرے مطابق ایسا کچھ نہیں اگر آپ چورن بنا کر بیچنا نہیں جانتے تو صحافی کہلوا کر اعلٰی پائے کے صحافی کی توہین مت کریں۔ جھوٹ مگر جھوٹ، کتابی اور خیالی باتیں مانوس کن دلفریب پرکشش ہوتی ہیں لیکن زمینی حقائق سے برعکس۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جس صحافتی ادارے کے سربراہ نے اربوں روپے لگا کر صحافتی اقدار کی پاسداری کی قسم کھائی جھوٹی کھائی۔ وہ سرمایہ دار ہے اور یہ دنیا اب سرمایہ دار کی جنت ہے۔ اصول وہی جو سرمایہ دار کے موافق، اقدار وہ جو سرمایہ دار کے مفادات کو ٹھیس نہ پہنچائے، ضابطہ وہ جو اسکی حفاظت کرے اور صحافت وہ جو سرمایہ دار کے نفع کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی دے۔ صحافی وہ جو سرمایہ دار کو راس ہو۔ سرمایہ دار میڈیا اونر غیر جانبدارانہ صحافت کے بھرم رکھنے تاثر دینے کیلئے ہر نظریئے ہر گروہ کا سب سے زیادہ جاندار الفاظ تراش کر پیش کرسکنے والے کی خدمات معاوضہ۔دیکر مستعار لیتا ہے ۔ موقف کو ذومعنی بے لاگ بے باک حقیقت کو پردوں میں چھپاسکنے تاثر مختلف پھیلاسکنے۔ حجتیں تراش سکنے۔ ذہنوں کو اسیر و تسخیر کرسکنے۔ معاوضوں مراعات کے عوض کسی کی بھرپور قوت سے ٹھوک بجا کر ترجمانی کرسکنے کا کام آسان نہیں۔ وکیل کو بال کی کھال اتارنے اور بوسیدہ بانجھ کھال پر بال اگانے کے پیسے ملتے ہیں۔ وہ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کرنے کا ہنر جانتا ہے۔ وہ صاف شفاف واشگاف طور حق کہے گا تو سرمایہ دار کو مصیبت میں ڈالے گا۔
ایک بڑے اخبار میں محض چار بلاگز چھپنے کے بعد اخبار کے ایک سینئر ترین عہدیدار نے ہاتھ باندھتے ہوئے میرا پانچواں بلاگ پڑھ کر کہا۔بیٹا اتنا سچ نہیں چاہیئے۔ ابھی مطالعہ کرو۔ لکھنا سیکھو کیا کہنا کیا نہیں کہنا یہ ابھی آپ کو معلوم نہیں۔ تب انکی بات سن کر اندر سے جل بھُن گیا۔ لیکن کئی سالوں بعد سمجھ آئی وہ درست تھے میں ہی کم۔فہم۔تھا۔ جو سرمایہ دار کے مفادات کے تحفظ کا رازپاجائے۔ وہی لکھاری، صحافی، دانشور تھنک ٹینک ہے۔ ابھی تک یہی سیکھ پایا۔ یہ جو مصلحت کی مجبوری ہے یہ آہستہ آہستہ ڈپلومیٹ بنا دیتی ہے۔ انگریزی میں صوبر لگتا ہے اردو میں منافق مگر چبھتا ہے۔ منافق بولے تو لفظ لفظ تول کر دو دو مطالب و معانی کہنے کا گُر ہاتھ آجانا۔ بات کچھ ہو اسے رنگ کچھ دینا یقیناً اسکے لیئے گھاگھ ہونا پڑتا ہے۔ مطالعہ تجربہ مشاہدہ مشق سخن و بیان بحث مباحثہ صبر اور بڑی تھپکی یعنی زبانی و مالی حوصلہ افزائی۔ یہ محنت ہے دن رات جاگ جاگ کر موضوع ازبر کیا جاتا ہے۔حق میں۔نکات تراشے جاتے ہیں حقیقت میں تحریفی اشارے بُنے جاتے ہیں اس میں۔شدید محنت ہے اور محنت میں عظمت ہے شاید یہی عبادت ہے جسے صحافت کا لحاف کہہ لیجیئے۔ درست بالکل درست ابھی سیکھنا ہے کیا کہنا کیا نہیں کہنا۔)شکیل بازغ)