تحریر: جاوید چودھری۔۔
ہم 52 لوگ دس دن قبل سوئٹزر لینڈ کے انتہائی خوب صورت ہل اسٹیشن ’’انٹرلاکن‘‘ میں گھوم رہے تھے‘ یہ شہر گلیشیئرکے دامن میں دو جھیلوں کے درمیان واقع ہے‘ایک خاموش لیکن رواں دریا ان دونوں جھیلوں کو آپس میں ملاتا ہے‘ ہم دریا کے کنارے چلتے چلتے ایک خوب صورت اسپاٹ پر پہنچ گئے۔ہمارے سامنے دریا تھا‘ اوپر گھنے درخت تھے‘ نیچے سبز گھاس تھی اور تاحد نظر خوب صورتی‘ سلیقہ اور ترتیب تھی‘ لوگ سائیکل چلا رہے تھے‘ دریا میں پیڈل والی کشتیاں بھی چل رہی تھیں‘مقامی لوگ جاگنگ بھی کر رہے تھے اور آہستہ آہستہ واک بھی‘ ہم نے درختوں کے نیچے بیٹھ کر لنچ کیا اور پیدل شہر کی طرف چل پڑے‘ دریا کی دونوں سائیڈز پر خوب صورت گھر تھے۔
لان سڑک کی طرف کھلتے تھے اور صاف ستھرے اور خوب صورت تھے‘ ہم چلتے چلتے پل پر آ گئے‘ گروپ نے تصویریں بنانا شروع کر دیں‘ ہر طرف امن‘ سکون‘ خوشی اور خوش حالی تھی‘ ہمارے گروپ کے ایک ساتھی نے چلتے چلتے سوال کیا’’ میں حیران ہوںکیا دنیا میں ایسے ملک اور جگہیں بھی موجود ہیں جہاں کوئی مسئلہ نہیں‘ جہاں ہر چیز سسٹم اور ترتیب سے چل رہی ہے؟‘‘ میں نے ہنس کر جواب دیا ’’آدھی دنیا ایسے ہی زندگی گزار رہی ہے‘ لوگ خوش بھی ہیں اور مطمئن بھی‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’ہمیں پھر کیا ایشو ہے‘ ہم کام یاب اور امیر ہو کر بھی کیوں دکھی اور پریشان ہیں؟‘‘ میں نے ہنس کر جواب دیا ’’انگریزی کا ایک لفظ ہے اسٹیبلٹی (Stability) ہم اردو میں اس کا ترجمہ استحکام کرتے ہیں‘ خوشی‘ اطمینان اور ترقی ہمیشہ اسٹیبلٹی سے جنم لیتی ہے اور پاکستان میں بدقسمتی سے استحکام نہیں ہے۔
آپ پورے ملک میں کوئی ایک شخص بتا دیں جس کو یہ یقین ہو وہ کل صبح اٹھے گا تو وہ‘ اس کی جاب‘ اس کا خاندان اور اس کے اثاثے ویسے ہی محفوظ ہوں گے جیسے یہ گزشتہ روز تھے‘ صدر سے لے کر چپڑاسی تک ملک کا ہر شخص عدم استحکام کے ساتھ سوتا اور عدم استحکام میں آنکھ کھولتا ہے اور جب اسٹیبلٹی نہ ہو تو پھر انسان صرف ہنستا ہے خوش نہیں ہوتا‘ وہ امیر ہوتا ہے لیکن مطمئن نہیں ہوتا اور وہ صرف گریڈ اور ایوارڈز لیتا ہے ترقی نہیں کرتا‘‘ میرے ساتھی نے میرے ساتھ اتفاق کیا کیوں کہ وہ بھی روز اسی عمل سے گزررہا تھا۔
ہم اگر کسی دن ٹھنڈے دل اور دماغ سے سوچیں تو ہم فوراً مان لیں گے ہمارے ملک کے تین سیریس مسئلے ہیں‘ ہم نے 75 برسوں میں کوئی بھی چیز فکس نہیں کی‘ ہم آج تک یہ فیصلہ نہیں کر سکے ہمیں ہفتے میں کتنی چھٹیاں چاہییں اور یہ کس دن ہونی چاہییں‘ ہم سات مرتبہ چھٹیاں تبدیل کر چکے ہیں‘ 1977تک اتوار کو چھٹی ہوتی تھی‘ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنا اقتدار بچانے کے لیے جمعہ کی چھٹی کر دی‘ اس کے نتیجے میں کاروباری سرگرمیاں منجمد ہو گئیں‘ پاکستان میں جمعرات کو آدھا دن کام ہوتا تھا‘ جمعہ کو چھٹی ہوتی تھی‘ ہم ہفتے کو دفتر اور فیکٹریاں کھولتے تھے اور ہفتے اور اتوار کو مغربی دنیا میں چھٹی ہوتی تھی یوں ہفتے کے سات دن سمٹ کر تین رہ گئے اور مغربی دنیا کے ساتھ کاروبار تقریباً ٹھپ ہو گیا‘ میاں نواز شریف اقتدار میں آئے اور انھوں نے 1997 میں ہفتہ وار چھٹی اتوار کر دی‘ جنرل پرویز مشرف نے لوڈشیڈنگ سے بچنے کے لیے ہفتے میں دو چھٹیاں کر دیں۔
پیپلز پارٹی آئی اور نومبر 2010 میں واپس ایک چھٹی کر دی‘ لوڈ شیڈنگ بڑھی تو سال بعد اکتوبر 2011 میں پھر دو چھٹیاں کر دیں‘ شہباز شریف وزیراعظم بنے تو 22 اپریل 2022 کو ایک چھٹی کر دی اور پھر پٹرول اوربجلی بچانے کے لیے 7 جون کو ایک بار پھر دوسری چھٹی بحال کر دی‘ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے ہم آج تک چھٹی کا فیصلہ بھی نہیں کر سکے جب کہ یورپ نے سو سال پہلے اڑھائی چھٹیوں کا فیصلہ کر لیا تھا‘ یورپ میں دفتر‘ شاپنگ سینٹر اور دکانیں بھی شام چھ بجے بند ہوجاتی ہیں اور پبلک ٹرانسپورٹ کا سسٹم بھی شان دار ہے‘ کیوں؟ کیوں کہ اس سے پٹرول‘ بجلی اور گیس کی بچت ہوتی ہے۔
لوگ اگر ذاتی گاڑیوں پر سفر کریں گے تو زیادہ پٹرول خرچ ہو گا‘ اگر ہفتے میں سات دن مارکیٹیں کھلیں گی اور رات بارہ بجے تک شاپنگ چلتی رہے گی توبجلی تین گنا استعمال ہو گی اور یوں امپورٹ بل بڑھ جائے گا‘ امپورٹ بل بڑھنے سے ایکسپورٹس اور امپورٹس کا توازن خراب ہو جائے گا اور یوں ملک سری لنکا کی طرح ڈیفالٹ کر جائے گا۔
لہٰذا یورپ نے پبلک ٹرانسپورٹ بنا کر‘ مارکیٹیں چھ بجے بند کر کے اور ہفتے میں اڑھائی چھٹیاں کر کے اپنے آپ کو توانائی کے بحران سے بچالیا جب کہ ہم آج تک چھٹیوں‘ پبلک ٹرانسپورٹ اور مارکیٹوں اور دفتروں کے اوقات کا فیصلہ نہیں کر سکے لہٰذا ہمارا بحران بڑھتا جا رہا ہے‘ پاکستان ایک گرم ملک بھی ہے اور ہم پٹرول اور گیس بھی امپورٹ کرتے ہیں چناں چہ ہم اگر گرمیوں میں دفتروں میں دن دو بجے چھٹی کر دیں‘ مارکیٹیں چھ بجے بند کر دیں اور ہفتے میں دو چھٹیاں کر دیں تو ہم لوڈ شیڈنگ سے بھی بچ جائیں گے اور ہمارا امپورٹ بل بھی نیچے آ جائے گا‘ دوسرا ہم اگر کڑوا گھونٹ بھر کر ایک ہی بار پورے ملک میں میٹروز بچھا دیں تو اس سے بھی پٹرول کی بچت ہو گی اگر دنیا یہ کر سکتی ہے تو ہم کیوں نہیں کرتے؟
ہمارا دوسرا مسئلہ ہم اینٹی پراگریس اور اینٹی بزنس ہیں‘ حکومت اگر آج کالاباغ ڈیم کا نام لے لے تو لوگ سڑکیں بند کر دیں گے‘ پی کے ایل آئی دسمبر 2017 میں مکمل ہونا تھا لیکن یہ آج تک تنازع کا شکار ہے‘ حنیف عباسی نے 2018میں راولپنڈی میں یورالوجی اسپتال بنایا تھا‘ یہ چار سال بند رہا‘ کروڑوں روپے کی مشینری سڑک پر پڑی پڑی خراب ہو گئی‘ میاں شہباز شریف نے تین شہروں میں میٹروز بنوائیں‘ یہ آج تک مقدمے بھگت رہے ہیں‘ شاہد خاقان عباسی نے ایل این جی کا معاہدہ کیا‘ یہ آج تک ایک عدالت سے دوسری عدالت میں دھکے کھا رہے ہیں‘پراگریس اور پرفارمنس احد چیمہ اور فواد حسن فواد جیسے بیوروکریٹس کے گلے کا پھندا بن گئی اور مجھے یقین ہے آج بھی اگر حکومت ویلفیئر کا کوئی پروجیکٹ شروع کر دے تو اس کی جان نہیں چھوٹے گی‘ یہ لوگ باقی زندگی جیلوں میں گزاریں گے۔
یہ سلسلہ صرف بیوروکریسی اور حکومت تک محدود نہیں بلکہ ہم انفرادی سطح پر بھی ترقی کرنے والے شخص کے خلاف ہیں‘ ہم آج بھی دوسروں کی نئی گاڑیوں پر لکیریں لگا دیتے ہیں اورنئے گھروں کے شیشے توڑ دیتے ہیں‘ یہ رویہ بھی برداشت ہو جاتا اگر ہم اینٹی پراگریس کے ساتھ ساتھ من حیث القوم اینٹی بزنس نہ ہوتے‘ آپ ملک میں بزنس شروع کر کے دیکھ لیں حکومت سمیت پورا سسٹم غول بن کر آپ پر ٹوٹ پڑے گا‘ انسان کو صرف ایف بی آر سے نمٹنے کے لیے دو زندگیاں چاہییں جب کہ آپ یورپ‘ امریکا اور کینیڈا میں چار پانچ لوگوں کو جاب دے دیں یہ ملک آپ کو شہریت دے دیں گے اور ادھر پاکستان میں تین تین ہزار جابز پیدا کرنے والے ذلیل ہوتے رہتے ہیں‘ میرے ایک دوست نے دعویٰ کیا کہ اینگرو کے چیئرمین حسین داؤد اس اینٹی بزنس اپروچ کی وجہ سے پاکستان سے نقل مکانی کرنے اور پاکستانی شہریت بھی چھوڑنے کا سوچ رہے ہیں۔
میں نے اس خبر کی تصدیق کرنے کی کوشش کی لیکن اس کی ابھی تک تصدیق نہیں ہو سکی بہر حال پاکستان کے چار ہزار بڑے بزنس مین ملک سے باہر ٹھکانے بنا چکے ہیں‘ کیوں؟ آپ نے کبھی غور کیا‘ وجہ ہماری اینٹی بزنس اپروچ ہے‘ حکومت بزنس بند کرانے اور لوگوں کو جاب لیس کرانے کے لیے پورا زور لگا دیتی ہے چناں چہ حالات آپ کے سامنے ہیں اور ہمارا تیسرا مسئلہ ہم ان ٹرینڈ قوم ہیں‘ پی ایچ ڈی کے ڈگری ہولڈرز بھی درخواست نہیں لکھ سکتے‘ یہ لیکچر نہیں دے سکتے‘ ڈاکٹر کو ہاتھ ملانا اور بات کرنا نہیں آتا‘ انجینئر جاب تلاش کر رہے ہوتے ہیں‘ ڈرائیور کو گاڑی چلانا‘ پلمبر کو جوڑ لگانا‘ کک کو کھانا پکانا اور پینٹر کو پینٹ کرنا نہیں آتا‘ پولیس اہلکار بھاگ دوڑ نہیں سکتے‘ گولی چلانے والا نشانہ نہیں لے سکتا‘ مستری کو اینٹ لگانا نہیں آتی اور آپ جب تک سارے کام چھوڑ کر پاس نہ بیٹھ جائیں پورے ملک میں کوئی شخص کام نہیں کرتا‘ یہ کیا ہے؟ یہ ٹریننگ کی کمی ہے‘ ہم آج تک قوم کی ٹریننگ نہیں کر سکے۔
ہم ہمیشہ تعلیم کے ساتھ تربیت لگاتے ہیں لیکن تربیت کہاں ہے؟ کیا پاکستان کا کوئی اسکول‘ کالج یا یونیورسٹی کسی اسٹوڈنٹ کو تربیت دیتی ہے اور کیا ہم نے آج تک کسی استاد کو بھی ٹریننگ دی؟ اور اگر دی ہے تو اس کا معیار کیا تھا؟ لہٰذا پورا ملک صدر سے چپڑاسی تک ٹریننگ اور اسکل کی کمی کا شکار ہے اور یہ انسان کی دس ہزار سال کی ریکارڈڈ ہسٹری ہے معاشرے میں جب تک استحکام نہ ہو‘ پالیسیاں فکس نہ ہوں‘ سوسائٹی پراگریس اور بزنس فرینڈلی نہ ہو اور ہر شہری ہنرمند اور ٹرینڈ نہ ہو سوسائٹی میں اس وقت تک امن‘ سکون اور خوشی نہیں آتی لہٰذا ہمیں ان پر توجہ دینا ہو گی۔
عدم استحکام میں تو پرندے انڈے نہیں دیتے جب کہ ہم معاشرہ چلانے کی کوشش کر رہے ہیں‘ یہ کیسے چلے گا؟لہٰذا خدا کے لیے پورے ملک کے لیے اسکل کو لازم قرار دے دیں‘ ملک کو پراگریس اور بزنس فرینڈلی بنائیں اور پورے ملک میں تمام پالیسیاں 25 سال کے لیے فکس کر دیں‘ حکومتیں آئیں یا جائیں لیکن پالیسی نہیں بدلے گی‘ معاشرے میں استحکام آ جائے گا اور یوں خوشی اور اطمینان کا لیول بڑھ جائے گا ورنہ ہم اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاںمار مار کر ختم ہو جائیں گے۔(بشکریہ ایکسپریس)