تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو، زندگی میں کچھ معاملات،باتیں اور واقعات کچھ ایسی عجیب و غریب ہونے کے ساتھ ساتھ دلچسپ بھی ہوتی ہیں جس کے متعلق آپ نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا۔۔ ہم خود روزانہ ڈھیر سارا مطالعہ کرتے ہیں ، جب سے ہوش سنبھالا ہے، مطالعہ میں کافی دلچسپی رہی،روزانہ نئی نئی باتیں سیکھتے رہے،سمجھتے رہے۔۔آج بھی کچھ ایسی چیزیں سامنے آجاتی ہیں کہ ہم چونکنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ یہ بات ہمیں پہلے پتہ کیوں نہیں تھی۔۔چنانچہ آج ہمارا موڈ ہے کہ ہم آپ کو وہ باتیں بتائیں جو خود ہمیں پہلی بار پتہ لگی ہیں،اس سے پہلے یقین کریں ہمیں بالکل اندازہ نہیں تھا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے یا ایسا بھی ممکن ہے۔۔ تو آئیے تمہید لمبی کرنے کے بجائے،ڈائریکٹ مدعا پر آجاتے ہیں۔۔کیوں کہ آپ کاوقت بے حد قیمتی ہے اور ہم ٹھہرے بے فضول سے انسان، جسے لکھنے ،پڑھنے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ کوئی اور کام آتا بھی نہیں۔۔
آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے پڑ جانے کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں تاہم اب ایک ماہر امراض چشم نے اس کی ایک ایسی وجہ بتا دی ہے کہ کسی نے کبھی سوچی بھی نہ ہو گی۔ ڈاکٹر روشنی پٹیل نامی اس ماہر نے بتایا ہے کہ کھانے میں زیادہ نمک استعمال کرنے سے بھی آپ کی آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے پڑ سکتے ہیں، جن سے کھانے میں نمک کی مقدار کم کرکے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔روشنی پٹیل کا کہنا تھا کہ ’’نمک کی زیادتی سے جسم میں مائع مواد میں رکاوٹ کا امکان بڑھ جاتا ہے اور عموماً یہ مائع مواد آنکھوں کے نیچے جمع ہوتا ہے جس سے اس جگہ پر جلد کی رنگت سیاہی مائل ہو جاتی ہے۔ ایسے لوگوں کو اپنی خوراک میں نمک کی مقدار کم کر دینی چاہیے۔ جو لوگ انیمیا کے عارضے کا شکار ہیں انہیں چاہیے کہ آئرن سے بھرپور اشیاکو اپنی خوراک کا حصہ بنائیں کیونکہ اس سے آکسیجن کو ٹشوز تک پہنچنے میں مدد ملتی ہے جس سے آنکھوں کے ان سیاہ حلقے ختم ہونے میں مدد ملتی ہے۔ویسے آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے تو ہمارے بھی ہیں، لیکن ہمیں قوی امید ہے کہ یہ نیند کی کمی کی وجہ سے ہے، کیوں کہ ہم رات بھر ’’الوؤں‘‘ کی طرح جاگتے ہیں، فجر کی نماز کے بعد سوتے ہیں اور گیارہ،بارہ بجے دوپہر تک اٹھ جاتے ہیں، یہ روٹین برسوں سے ہے۔۔اور اب تو ایسے جینے کی عادت سی ہوگئی ہے۔۔
آپ آئی فون، اینڈرائیڈ فون اور حتیٰ کہ ڈیجیٹل کیمرے سے جو بھی تصویر بناتے ہیں، اس کے ساتھ خودکار طریقے سے آپ کا نجی نوعیت کا ڈیٹا بھی محفوظ ہو جاتا ہے اور جب آپ یہ تصاویر کسی شخص کو بھیجتے ہیں تو آپ کا یہ ڈیٹا بھی اس کے ساتھ ہی چلا جاتا ہے جو غالباً آپ اس شخص کو نہیں دکھانا چاہتے۔ایک برطانوی اخبار کے مطابق یہ ’میٹا ڈیٹا‘ ہوتا ہے جس میں صارف کی لوکیشن، کام کی جگہ، رہائش کی جگہ، کون کون سی جگہوں پر آپ اکثر جاتے رہتے ہیں وغیرہ جیسی معلومات شامل ہوتی ہیں۔ ڈیوائسز خودکار طریقے سے ان پر بنائی جانے والی تصاویر میں یہ میٹا ڈیٹا شامل کرتی ہیں جس کا مقصد ان تصاویر کو خاص ترتیب سے محفوظ کرنا اور ’میموریز‘ کے طور پر دوبارہ آپ کو دکھانا ہوتا ہے۔ اینڈرائیڈ اور آئی او ایس آپریٹنگ سسٹمز اس میٹا ڈیٹا کو مذکورہ مقاصد کے لیے بروئے کار لاتے ہیں۔ اگر آپ یہ تصاویر اسی طرح اٹھا کر کسی شخص کو میسج کے ذریعے بھیج دیتے ہیں، تو آپ کا یہ ڈیٹا بھی اس کے پاس چلا جائے گا لہٰذا صارفین کو چاہیے کہ اپنی کوئی بھی تصویر دوسروں کو بھیجنے سے قبل اس میں سے اپنی لوکیشن کے متعلق معلومات ڈیلیٹ کر دیں۔
فضائی سفر کے دوران سونا کئی مسافروں کے لیے ایک چیلنج ہوتا ہے کہ انہیں نیند ہی نہیں آتی، تاہم اب ایک سابق ایئرہوسٹس نے دوران سفرسونے کا ایک آسان طریقہ بتا دیا ہے مگر یہ طریقہ آپ کو اپنے لیے تو پسند آئے گا لیکن اگر آپ کے سامنے والی سیٹ پر بیٹھے شخص نے اس پر عمل کیا تو ہو سکتا ہے آپ کو ناگوار گزرے، کیونکہ طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنی سیٹ کو پیچھے کی طرف جھکائیں اور آرام سے لیٹ جائیں۔ یہ طریقہ بتانے والی اسپاسورتھ نامی ایئرہوسٹس ایمریٹس کے ساتھ طویل عرصہ وابستہ رہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ زیادہ تر لوگوں کو اس لیے نیند نہیں آتی، کیونکہ وہ پیچھے بیٹھے مسافر کی ناگواریت کے ڈر سے سیٹ پیچھے کی طرف نہیں کرتے۔ میں لوگوں کو بتانا چاہتی ہوں کہ آپ لوگوں کی پروا مت کریں۔ آپ نے سیٹ پیچھے کرنے کے پیسے فضائی کمپنی کو دے رکھے ہیں، لہٰذا آپ کو کوئی منع نہیں کرے گا۔ آپ اپنی سیٹ پیچھے کی طرف کریں اور آرام سے سو جائیں۔اگر کوئی اسے برا رویہ کہے گا تو اس کے آپ ذمہ دار نہیں ہوں گے بلکہ فضائی کمپنی ہو گی، جو مسافروں سے اس کے پیسے لیتی اور انہیں سیٹ پیچھے کی طرف جھکانے کی اجازت دیتی ہے۔
ملک بھرمیں مہنگائی،مہنگائی کا شور بپاہے، کورونا کی وجہ سے گزشتہ دو سال میں تو ہر پاکستانی شدید متاثر ہوا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ دس سال کے دوران کئی خاندانوں کے مالی بحران کی دس بڑی وجوہات سامنے آئی ہیں۔۔ سب سے پہلی وجہ یہ ہے کہ خاندان میں ہرایک کے پاس سمارٹ فون ہے۔۔سماجی دباؤ کے تحت چھٹیاں۔۔۔سٹیٹس سمبل کے طور پر گاڑی خریدنا۔۔۔گھر کے بنائے ہوئے کھانے سے پرہیز کرنا اور ویک اینڈ پر غیر ضروری طور پر باہر کھانا۔۔سیلون، پارلر اور کپڑوں کے لیے برانڈ کا شعور۔، خراب طرز زندگی طبی اخراجات میں اضافہ۔۔۔ ایک ساتھ وقت گزارنے کے بجائے زیادہ پیسہ خرچ کرکے سالگرہ اور سالگرہ کو خاص بنانے کی کوشش کرنا۔۔عظیم الشان شادیاں اور خاندانی تقریب۔۔ ہسپتالوں، سکولوں اور ٹیوشنز کی تجارتی کاری،تعلیم وغیرہ۔۔وہ خرچ کرنا جو آپ نے ابھی تک کمایا نہیں، قرضوں اور کریڈٹ کارڈز کے ذریعے۔۔اور گھر و دفتر کے اندرونی حصوں پر پیسہ خرچ کرنا اور اس طرح دیکھ بھال کی لاگت میں اضافہ۔۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ۔۔ ہم اپنی ضروریات اور آمدنی کو سمجھے بغیر دوسروں کے طرز زندگی کی نقل کر رہے ہیں۔ اگر یہ کم نہیں کیاگیا، تو یہ گزرتے برسوں کے ساتھ آنے والے وقت میں بھی بہت زیادہ تناؤ اور پریشانی کا باعث بنے گا۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔یہ اچھا ڈرامہ سیکھ لیا ہے لوگوں نے، پہلے تو خوب غصہ کرتے ہیں، ذلیل کرتے ہیں، گالیاں نکالتے ہیں، پھر جب پتہ چلتا ہے کہ غلطی خود اپنی ہے تو ڈھٹائی سے کہہ دیتے ہیں ، سوری، بلڈ پریشر ہائی ہوگیا تھا۔ بندہ پوچھے،’’بلڈ‘‘ صرف تمہارے ہی اندر ہے، سامنے والا کیا سی این جی پر ہے؟؟ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔