anokha gang police wakeel sahafi bhi shamil

انوکھا گینگ، پولیس،وکیل صحافی بھی شامل

تحریر: ملک سلمان۔۔

ملتان میں انکم ٹیکس کے سنئیر آفیسر کے خلاف خاتون سے جبری زیادتی کی سوشل میڈیا پوسٹ دیکھی۔ جیسے ہی مدعی کے طور پر عظمیٰ شہزادی کا نام دیکھا تو مشہور زمانہ گینگ کا خیال آیا۔صبح سے اسی طرح کے پرانے واقعات کی ایف آئی آرز اکٹھی کر رہا ہوں۔ آج صبح والی اور پرانی ایف ائی آر دیکھی تو یہ وہی عظمی شہزادی نکلی۔ رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والی عظمیٰ شہزادی نامی اس خاتون کے چار نام اور شناختی کارڈ ہیں اور کئی سالوں سے لوگوں کو بلیک میل کرکے لوٹ رہی ہے۔ سب سے مشہور نام عظمیٰ شہزادی اور شناختی کارڈ کے ریکارڈ کے مطابق درجن بھر ایف آئی آر کا متن اور طریقہ ایک ہی ہے۔چار نام، چار شناختی کارڈ، درجنوں ایف آئی آر اور سینکڑوں واقعات کے باوجود عظمیٰ شہزادی جیسے گینگ ہر دفعہ کیسے بچ جاتے ہیں؟ یہ ایک ایسی لعنت ہے جس پر بات کرنے کیلئے کوئی تیار نہیں۔ میں اس برائی کے خلاف پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ لوگوں کو اگاہ کروں تب بھی بہت سارے دوستوں نے خبردار کیا کہ غلاظت سے دامن بچا کر رہو، اس گینگ میں پولیس، وکیل اور صحافی بھی شامل ہیں۔ڈرنے کی بجائے میں نے ہمیشہ ضمیر کے آواز پر سچ کے ساتھ کھڑے رہنے کو ترجیح دی۔سرکاری ملازمین کی غیرقانونی سوشل میڈیا سیلف پروجیکشن کے خلاف لکھنا شروع کیا تو تب بھی بہت سارے افراد نے خبردار کیا کہ سرکاری ملازمین کی سیلف پروجیکشن کی لعنت کے خلاف لکھنے پر پولیس اور دیگر افسران آپ کے خلاف ہیں کسی مقدمے میں پھنسا دیں گے میں نے کہا کہ بھائی اللہ خیر کرے گا دیکھا جائے گا، تب تک سوشل میڈیا سیلف پروجیکش کے خلاف لکھا جب تک حکومت نے سرکاری ملازمین پر پابندی نہیں لگا دی۔بلیک میلر عظمی شہزادی صاحبِ حیثیت افراد کی مکمل ریکی اور معلومات اکٹھی کرنے کے بعد ان سے سوشل میڈیا اور بعد ازاں فون پہ رابطہ کرتی ہے۔ ہر کسی کو اپنی مجبوری لاچاری اور تنہائی کی کہانیاں سنا کر آہستہ آہستہ قربت حاصل کرتی ہے۔اکثر واقعات میں گاڑی کا ٹکٹ اور ٹیکسی تک شکار سے منگواتی ہے تاکہ اسے شک بھی نہ ہو اور شکار کے خلاف ثبوت بھی اکٹھے ہو جائیں۔ ہوٹل میں مخصوص ملاقات کے فوری بعد پچاس لاکھ سے لیکر پانچ کروڑ تک بھاری بھرکم پیسوں کی ڈیمانڈ کی جاتی ہے اگر کوئی عزت بچانے کے ڈر سے رقم دے دے تو بات ختم نہیں تو 15 پہ کال کر کے پولیس بُلا لیتی ہے اور زنا کا الزام لگا کر ایف آئی آر۔یہ گینگ سینکڑوں وارداتوں میں اہم شخصیات سے کروڑوں روپے لوٹ چُکی ہے۔ایک تو یہ خاتون ہونے کا فائدہ اُٹھاتی ہے دوسرا یہ منظم گینگ ہے، جس میں دو تین مخصوص صحافی ایف آئی آر کو وائرل کرتے ہیں جبکہ اسی گینگ کے سہولت کار چند پولیس اہلکار اور ایک وکیل بھاری رقم کے عوض صلح کیلئے ماحول بناتے ہیں۔کہتے ہیں نہ جب میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا ؟قاضی کے مصداق جو کوئی مرد و زن باہمی مفادات اور رضامندی کے تحت کسی سے جیسے بھی تعلقات میں ہے ہمیں رائے دینے یا بدنام کرنے کا کوئی حق نہیں یہ انکا اور اللہ کا معاملہ ہے۔ہاں اگر کوئی بھی فریق کسی کے ساتھ زیادتی یا بلیک میل کرتا ہے تو ظالم اور بلیک میلر کے خلاف آواز بلند کرنی چاہئے۔بلیک میلنگ والے باقاعدہ گروہ ہیں کیونکہ انکو فوری بڑی رقم چاہئے ہوتی ہے اس لیے زیادہ انتظار نہیں کرتے جیسے ہی شکار فزیکل ریلیشن میں آیا اسے بلیک میل کرنا شروع کردیا۔ دل پھینک ہونے کے باعث سرکاری افسران سب سے آسان ٹارگٹ بن چکے ہیں۔میں نے اپنے کالم میں ایک آفیسر کا واقعہ بھی تحریر کیا تھا کہ ایس پی نے سنئیر آفیسر سے تعاون کرنے کی بجائے اپنے ایس ایچ او کو کہا کہ خاتون کو پیسے دلوا دو نہیں دیتا تو ایف آئی آر کردو۔ 98فیصد واقعات میں ایف آئی آئی آر درج ہونے کی نوبت ہی نہیں آتی اور بند کمرے میں ہی ڈیل ہوجاتی ہے۔ ایک خاتون اینکر کے بارے خبریں ہیں کہ وہ افسران سے دوستیاں کرکے کام نکلواتی ہے۔ سوشل خواتین نے بھی تگڑے سیاستدانوں اور افسران تک رسائی کیلئے اپنا آپ لٹاکر انکا سب کچھ لوٹنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔اس معاملے کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے سنئیر افسران پر مشتمل ایک جے آئی ٹی بنانی چاہئے۔ تھانوں سے ایسی درخواستوں کا ریکارڈ اکٹھا کیا جائے اور تحقیقات کرکے ایسے تمام نیٹ ورک کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کی جائے ۔ اس غلیظ دھندے میں جو جو ملوث ہے اور سہولت کاری کر رہا ان تمام کو عبرت ناک سزا دینی چاہئے تاکہ نیکسٹ کوئی کسی کو بلیک میل نہ کرسکے۔(ملک سلمان)

(تحریراور اس کے مندرجات سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسیوں کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ یہ تحریراپنے قارئین کی نذر اس لئے کررہے ہیں کہ انہیں معاشرے میں ہونے والی گھناونی کارروائیوں سے متعلق آگہی رہے۔۔علی عمران جونیئر)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں