تحریر: امجد عثمانی۔۔
یہ 27جولائی 2024کو لکھے کالم کا ایک اقتباس ہے”کچھ دن ہوئے پنجاب کے 708کالجوں کی نمائندہ تنظیم پنجاب پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن کی صدر پروفیسر فائزہ رعنا اور سیکرٹری جنرل پروفیسر محبوب عارف کی قیادت میں پانچ رکنی وفد نے لاہور پریس کلب کو “شرف میزبانی”بخشا۔۔۔۔میرے نزدیک اساتذہ کرام کا “پروٹوکول” یہ ہے کہ ان کے سامنے گردن جھکائی جائے۔۔۔ان کے ہاتھ چومیں جائیں۔۔۔۔ان کے گھٹنے چھوئے جائیں۔۔۔۔!
میری کب سے تمنا تھی کہ اساتذہ کرام لاہور پریس کلب کا دورہ کریں۔۔۔اس خواہش کے پیچھے “اپنے تئیں”گزشتہ سال ایک پروفیسر صاحب کی تھانے میں توہین کا “کفارہ”ادا کرنا بھی تھا۔۔۔۔حالاں کہ یہ ازالہ “جنگل کے بادشاہ” پولیس سربراہ کو ادا کرنا چاہیے تھا مگر انہیں کہاں خبر۔۔۔انہیں کہاں فرصت؟؟ہوا یوں کہ چائنہ سکیم کالج کے پروفیسر شیر محمد خان صاحب ایک جائز معاملے میں تھانہ مغل پورہ گئے۔۔۔۔انہوں نے بطور پروفیسر اپنا تعارف کرایا تو نیازی نامی انسپکٹر صاحب بھڑک اٹھے اور مبینہ طور پر کڑاکے دار جواب دیا کہ میں تو کسی ڈی آئی جی کو کچھ نہیں سمجھتا۔۔۔۔پروفیسر کیا ہوتا ہے؟؟؟جائو ادھر جاکر زمین پر بیٹھو۔۔۔۔۔!!!”کاش کوئی اس گستاخ تھانے دار کو بتاتا کہ پروفیسر “کیا” نہیں “باپ”ہوتا ہے۔۔۔۔!!!سنا ہے کہ شیرا کوٹ کے علاقے میں موٹر مکینک کے ہاتھوں قتل ہونے والے انسپکٹر سیف اللہ نیازی وہی بد قسمت انسپکٹر صاحب ہیں جنہوں نے کالج استاد کی توہین کی تھی۔۔۔۔۔میڈیا رپورٹس کے مطابق انسپکٹر سیف اللہ نیازی نے موٹر مکینک عدیل کو سامان لینے بھیجا اور تاخیر پر گالیاں دیں جس پر ملزم طیش میں آگیا اور انسپکٹر سیف اللہ کی پستول اٹھا کر اسی پر گولیاں چلادیں جس کے نتیجے میں انسپکٹر موقع پر ہی دم توڑ گیا۔۔۔ملزم نے فرار ہونے کے بجائے پولیس کو گرفتاری بھی دے دی۔۔۔
افسوس کہ یہ دلخراش واقعہ پیش نہ آتا کہ پولیس اہلکار کے بھی بیوی بچے ہیں۔۔لیکن یہ واقعہ عبرت بھی ہے کہ کچھ آہیں عرش الٰہی بھی ہلادیتی ہیں اور نا جانے کس مظلوم کے آنسوئوں سے زمین سرخ ہوگئی۔۔۔کہرام مچ گیا۔۔۔۔!!!(امجد عثمانی)۔۔