علی عمران جونیئر
دوستو،پی ڈی ایم حکومت اس گھر کی طرح تھی جس میں اگر شوہر بیوی کو خوش کرتا ہے تو ماں ناراض ہوجاتی ہے، ماں کی خدمت کرتا ہے تو بیوی کی تیوریاں چڑھ جاتی ہیں، اگر دونوں کو خوش رکھیں تو گھر کے دیگر فراد منہ بسورے نظر آتے ہیں۔ تیرہ جماعتی اتحاد میں کام سے زیادہ منانے میں ٹائم گزرا۔ ایک محترمہ بتارہی تھیں۔۔کل رات” ساسو ماں” کی ٹانگیں دبا رہی تھی تو فرمانے لگیں ۔۔اگر بہو ساس کو ماں سمجھنے لگے تو کسی گھر میں ساس بہو کا جھگڑا نہ ہو ۔تو میں نے کہا ،میری شدید ترین خواہش ہے کہ میں اس گھر میں ایک دن صرف ایک دن آپ کی بیٹی بن کر گزاروں آپ بھی مجھے اپنی بیٹی سمجھیں کیا برداشت کر لیں گی آپ؟؟ ساسو ماں نہ سمجھی کی حالت میں بولی۔۔ کیوں نہیں ،میں تو تمھیں بیٹی ہی سمجھتی ہو ں،بیٹی سمجھ کر ہی بیاہ کر لائی تھی تم نہ سمجھو تو الگ بات ہے۔میں نے کہا، آپ نے ایک گھنٹہ بھی پورا نہیں کرنا اور آپ نے فوری ساس بن جانا ہے۔ پوچھنے لگیں، کیوں بیٹی بن کر کیا کرنا چاہتی ہو؟؟میں نے کہا اپنی مرضی کا دن گزارنا چاہتی ہوں، آپ کے سامنے بیٹھ کر ٹی وی دیکھنا چاہتی ہوں، آپ کچھ کہیں تو آپ کو ٹھوک کر جواب دینا چاہتی ہوں، اونچا میوزک سننا چاہتی ہوں، آپ کی آواز کو اگنور کرنا چاہتی ہوں، کمرے میں آنے پر آپ کو کہنا چاہتی ہوں جاتے ہوئے دروازہ بند کر جائیں ، لائٹ آف کر جائیں ،چائے کا ایک کپ بنا دیں ۔کل میری دوستیں آ رہی ہیں ان کے لیے بریانی آپ نے بنانی ہے اور وہ سب کچھ جو آپ کی بیٹیاں میرے سامنے کرتی ہیں اور آپ کو ان کی ہر بات پر پیار اور میری انھی باتوں پر غصہ آتا ہے ۔ساسو ماں کو چڑھ غصہ گیا اور فوری پیر پیچھے کھینچ لیے ، کہنے لگیں۔انج گھر نہیں وسدے..!
رانا جی (سیاست دان والے نہیں) ارب پتی تھے، پیسہ وافر مقدار میں ہوتو پھر ”شوبازی” انسان کے اندر آجاتی ہے۔ بیگم کو لے کر فائیو اسٹار ہوٹل کے ریسٹورنٹ میں ڈِنر کر رہے تھے،ٹھیک اُسی وقت ایک بیس، بائیس سال کی ماڈرن لڑکی چُست مِنی اسکرٹ اور چھوٹا سا ٹاپ پہنے ۔۔مٹکتے ہُوے آئی اور رانا صاحب کو طویل فلائنگ کِس کرنے کے بعد۔۔پھر ملتے ہیں۔۔کہہ کر مٹکتے ہُوے چلی گئی۔۔ہکا بکا بیوی لال پیلی ہوتے ہُوئے چیخی۔۔کون تھی وہ لڑکی۔؟رانا صاحب کے نزدیک کچھ ہوا ہی نہیں تھا، وہ بڑے اطمینان سے چکن کے لیگ پیس سے انصاف کررہے تھے، بیوی پر ایک نظر ڈالی اور کہنے لگے۔۔ارے وہ،گرل فرینڈ ہے میری۔۔بیوی غصے سے دانت پیستے ہوئے بولی۔۔ کیا کہا؟ گرل فرینڈ؟؟؟مُجھے ابھی اور اِسی وقت طلاق چاہئے۔۔ رانا صاحب نے ٹشو سے مونچھیں اور ہونٹ صاف کرتے ہوئے کہا۔۔ٹھیک ہے، کوئی مسئلہ نہیں۔۔لیکن سوچ لو،تُمھیں تُمہارے سارے واجبات تو مِل جائیں گے،لیکن وہ سال میںآٹھ، دس بار مال میں شاپنگ،دو بار ہِل اسٹیشن کی سیر،گیرج میں کھڑی کار،وہ مہنگے کلبوں کی تُمہاری پارٹیاں، اِن تمام چیزوں سے تُمھیں محروم ہونا پڑے گا۔بیوی سوچ میں پڑ گئی۔!پِھر اچانک بیوی کی نظر اُن کے پڑوسی نیازی صاحب پر پڑی جو اپنے آدھی عمر کی جوان لڑکی کے ساتھ ریسٹورنٹ میں داخل ہو رہے تھے۔بیوی نے حیران ہو کر پوچھا۔۔ارے!!!!!!!!یہ نیازی صاحب کے ساتھ وہ لڑکی کون ہے؟رانا صاحب نے پلٹ کر اُس طرف دیکھااور پِھر لا پروائی سے بولے وہ۔۔نیازی صاحب اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ ہیں۔۔بیوی کُچھ دیر سوچتی رہی،پِھر بولی۔۔اپنی والی زیادہ خوبصورت ہے۔۔ نا۔۔!!!
عالمی سچائی یعنی یونیورسل ٹروتھ ہے کہ بیوی کو آج تک کوئی نہیں سمجھ سکا۔ ہمارے ایک دوست کو چائے بنانی نہیں آتی تھی۔ ہم نے اسے شادی کا مشورہ دے ڈالا۔ اب ماشا اللہ وہ برتن اور کپڑے اچھی طرح دھونے کے ساتھ ساتھ بہترین کھانا بھی بنا لیتا ہے۔کل ملا تھا پوچھ رہا تھا کہ پاکستان اور انڈیا کی جنگ کب ہو گی میں شہید ہونا چاہتا ہوں۔باباجی فرماتے ہیں۔۔اگر شیطان کی بیوی ہوتی تو شاید وہ اتنا شیطان نہ ہوتا۔ کسی نے ایک فیکٹری کے مالک سے پوچھا۔۔ جناب آپ صرف شادی شدہ افراد کو ہی ملازمت پر کیوں رکھتے ہیں۔فیکٹری کا مالک مسکرا کر بولا۔۔کیونکہ ان میں بے عزتی برداشت کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے اور گھر جانے کی جلدی بھی نہیں ہوتی۔ہمارے پیارے دوست کو شادی کی فکر ہوگئی ہے۔ وہ آج کل اپنے ہر دوست سے کہتے ہیں کہ میرے لئے لڑکی تلاش کرو، ساتھ ہی وہ کچھ شرائط بھی عائد کردیتے ہیں۔ ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی سین کیا۔۔ کہنے لگے۔آپ لوگوں کی آسانی کیلئے میں لڑکی کی کی چند مطلوبہ صفات لکھ بھیجتا ہوں،اگر اسے ملحوظ رکھیں گے تو مجھے بھی خوشی ہوگی،ورنہ ویسے تو ہر جواں سال میں میری بیوی بننے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے۔۔وہ صفات کیا ہیں جو لڑکی میں لازمی ہونی چاہئے۔۔ درحقیقت چاند ہو،اسلئے منہ دھلا کر دیکھا جائے۔ سریلی آواز ہو،ڈانٹ سن کر ہارٹ اٹیک آنے کا خطرہ نہ ہو۔۔ باحیا ہو سلیقہ مند ہو،کم از کم دوستوں کے آنے پر چائے وہ خود بنائے۔۔ اتنی کم عمر نہ ہو کہ اس کی سہیلیاں مجھے انکل کہنے لگیں۔ اتنی عمر دراز نہ ہو کہ کوئی امی ہی سمجھ بیٹھے۔ اتنی گوری نہ ہو کہ ٹی وی والے پیچھے دوڑیں۔ اتنی کالی بھی نہ ہو کہ افریقہ والے رشتہ دار سمجھیں۔ قد اتنا چھوٹا نہ ہو کہ کنڈیکٹر کہے کہ بچی کو گود میں اٹھاؤ۔۔ اتنی لمبی بھی نہ ہو کہ غصہ میں چمانٹ مارنے کیلئے سیڑھی لگانا پڑے۔۔ اتنی دبلی نہ ہو کہ قحط سالی کا گمان ہو۔ اتنی موٹی نہ ہو کہ تین آدمیوں کے کھانے کا وہ ناشتہ کر لے۔ اتنی خوش شکل نہ ہو کہ لوگ کہیں،حور کے ساتھ میں لنگور خدا کی قدرت۔ اتنی بااخلاق نہ ہو کہ محلے والے بے تکلف ہوجائیں۔ اتنی کند ذھن نہ ہو کہ لطیفہ سن کر کہے کہ پھر کیا ہوا۔ اتنی چالاک بھی نہ ہو کہ مرد کو پان کی پڑیا سمجھ کر جیب میں رکھے۔ہم نے یہ صفات بغور پڑھیں بلکہ باربار پڑھیں ،پھر اپنے پیارے دوست کو واٹس ایپ پر میسیج کیا۔ اینج گھر نہیں وسدے۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔اس جشن آزادی پر جتنی ”پاں،پاں” ہوئی ہے، لگتا ہے ہم پاکستان میں نہیں ”پاں۔کستان” میں رہ رہے ہیں۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔