تحریر: یاسر پیرزادہ۔۔
اِس ملک میں دو قسم کے لوگ رہتے ہیں، ایک وہ ہیں جن کیلئے انگریزی کا لفظ Entitled استعمال ہوتا ہے ، Entitled کا لفظی مطلب حقدار یا مستحق ہے مگر اِن لفظوں سے یتیمی جھلکتی ہے جبکہ Entitled وہ شخص ہوتا ہے جو پیدائشی طور خودکو خصوصی سلوک کا مستحق سمجھے، ایسا شخص چاہتا ہےکہ اُس کی چنیدہ باتوں، چیزوں یا شخصیات کو دوسروں کی پسند پر فوقیت دی جائے اور ہر معاملے میں اُس کی رائےکو ہمیشہ صائب سمجھا جائے ۔دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جنہیں ہم افتادگانِ خاک کہہ سکتے ہیں،انگریزی میں بولے تو Children of a lesser god یعنی معاشرے کا وہ یتیم مسکین طبقہ جس کی پسند نا پسند کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ، اُن کےرہن سہن اور بود و باش کو پست اور گھٹیاسمجھا جاتا ہے اور اُن کے زندگی گزارنے کے طریقے کوحقارت سے دیکھا جاتا ہے ۔ اِن دونوں طبقات میں وہی فرق ہے جو سات لاکھ میں بنائی گئی سلطان راہی کی’ ’مولا جٹ‘ ‘ اورپچاس کروڑ میں بنائی گئی فواد خان کی ’’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ ‘ میں ہے ۔
میں لاہور کے جس سنیما گھر میں دی لیجنڈ آف مولا جٹ دیکھنے گیا وہاں لوگ اپنے قد کے برابر پاپ کارن کا ڈبہ خرید کر فلم دیکھتے ہیں اور واپسی پر سنیما ہال کا وہ حال کرکے جاتے ہیں کہ تین بندے مل کر اُس کی صفائی کریں تو اگلاتماشہ ( شو )شروع ہوتا ہے ، یہ وہی لوگ ہیں جنہیں اِس ملک میں خونیںانقلاب کی خواہش ہے ، جو اصولاً تو انہی کے خلاف آنا چاہیے ،مگر قومی ترانہ بجنے پر اِنہیں کھڑے ہونے میں شرم محسوس ہوتی ہے ۔بات کہیں اور نکل جائے گی، فلم پہ واپس آتے ہیں ۔پہلے دی لیجنڈ آف مولا جٹ کو وہ داد دی جائے جس کی یہ فلم مستحق ہے ۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ اِس فلم نے تاریخ رقم کی ہے، یہ پاکستان کی اب تک کی سب سے کامیاب فلم ہے ، لوگ دوبارہ سنیماگھروں کی طرف راغب ہوئے ہیں،اِس سے ہماری مردہ انڈسٹری کو نئی زندگی ملے گی، بلال لاشاری ایک بے حد تخلیقی ہدایتکار کے روپ میں سامنے آئے ہیں، اپنے والد کامران لاشاری کی طرح اُن میں بھی قابلیت کوٹ کوٹ کر بھری ہے اور یہ قابلیت فلم میں جا بجا نظر بھی آتی ہے ، فلم کی پروڈکشن کسی بھی حوالے سے بین الاقوامی معیار سے کم نہیں ، کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ فلم پاکستان جیسے ملک میں بنائی گئی ہے جہاں سال میں درجن بھر فلمیں بنتی ہیں اور وہ بھی چند کروڑ میں ، فلم میں پنجاب کی منظر کشی بھی خوب کی گئی ہے، اداکاروں کے ملبوسات ، سیٹ ڈیزائن اور لڑائی بھڑائی کے مناظر فلم کی جان ہیں ، میں نے سنا ہے کہ اِس کے لیے خاص طور سے تھائی لینڈ سے جنگجوؤں کو لایا گیا تھا جنہیں لڑائی کے مناظرمیں استعمال کیا گیا۔تعریف یہاں ختم ہوئی۔
دی لیجنڈ آف مولا جٹ دیکھتے وقت پہلا احساس یہ ہوتاہے کہ یہ فلم اندھیرے میں بنائی گئی ہے ، دن کی روشنی والے مناظر بہت کم ہیں اور اگر ہیں بھی توانہیں اِن ڈور میں ایسے فلمایا گیا ہے کہ شام کا گمان ہوتا ہے ۔ فلم میں بظاہر تو پنجاب دکھایا گیا ہے مگر زمانہ متعین نہیں ، کچھ پتا نہیں چلتا کہ یہ انگریزوں کے زمانے کا پنجاب ہے یا رنجیت سنگھ کا۔ فلم میں ایک کولوسیم بھی بنایا گیا ہے جس میں گلیڈی ایٹر کی طرز پر جنگجوؤں کے مقابلے دکھائے گئے ہیں، ایسا پنجاب میں کب ہوتا تھا ،میں تو نہیں جانتا،کسی کے علم میں ہو تو ضرور بتائے۔فلم کا مرکزی کردار مولا جٹ فواد خان نے نبھایا ہے جبکہ نوری نت کا کردار حمزہ علی عباسی نے، فواد خان کے مقابلے میں حمزہ علی عباسی کی اداکاری اور پنجابی کہیں بہتر ہے ، فواد خان فلم کے پہلے ایک گھنٹے تک تو گونگا ہی بنا رہا ، انٹرول کے بعدکہیں جا کر اُس کے مکالمے شروع ہوئے مگر بالکل بے جان، مولا جٹ کے کردار سے بھی انصاف نہیں کیا گیا، کہیں وہ ایک خون خوار جنگجو کے روپ میں نظر آیا تو کہیں وہ یکدم مخولیا بن گیا، فواد خان نے کوشش تو بہت کی کہ پنجابی ٹھیک بولے مگر بات نہیں بنی ۔ ماہرہ خان کی پنجابی تو ایسی تھی جیسی بھارتی فلموں میں غیر پنجابی اداکاروں سے بلوائی جاتی ہے ، اِس بات کی منطق سمجھ نہیں آئی کہ مکھو جٹی جیسے ٹھیٹھ پنجابی کردار کے لیے پنجابی اداکارہ کیوں نہیں چنی گئی ۔لیکن پنجابی اداکاروں کی بھی سُن لیں ، مولے کے دوست مودے کا کردار فارس شفیع اور نوری کے بھائی ماکھے کا کردار گوہر رشید نے نبھایا، دونوں کی پیدائش لاہور کی ہے،فارس تو صبا حمید کا بیٹا ہے جبکہ گوہر غلام احمد پرویز صاحب کا نواسہ، اِس کے باوجود دونوں نےجس طرح پنجابی بولی اسے دیکھ کر یوں لگا جیسے انہوں نے عمداً ایسا کیاہے یا پھر انہیں بھی پنجابی نہیں آتی۔ گوہر رشید کی اداکاری ویسے خوب تھی۔ہمائمہ ملک کے حصے میں نوری نت کی بہن دارو نتنی کا کردارآیا مگر نتنی صاحبہ نے لباس ایسا پہنا جیسے وہ پنجاب میں نہیں بلکہ پیرس فیشن ویک میں کیٹ واک کر رہی ہوں، پنجابی اُن کی بھی ایسی ہی تھی جیسے برگر بچے با امر مجبوری بولتے ہیں۔ نئی مولا جٹ دیکھ کر مجھے یوں لگا جیسے حمزہ عباسی کے علاوہ کسی نے اصلی مولا جٹ نہیں دیکھی، حمزہ عباسی کی اداکاری پوری فلم میں سب پر بھاری نظر آئی ، اس کے حصے میں پرانی فلم کے کچھ مکالمے بھی آئے جس کا اسے فائدہ پہنچا اور اُس کا گیٹ اپ بھی کچھ ایسا تھا کہ راسپوٹین کا گمان ہوتا تھا، اِن تمام باتوں نے مل کر اُس کے کردار میں جان ڈال دی۔
کسی بھی فلم کی کامیابی کا پیمانہ یہ ہوتا ہے کہ اُس نے کتنے پیسے کمائے ، اِس پیمانے پر نئی اور پرانی دونوں مولا جٹ پورا اترتی ہیں ،فلم کی کامیابی کا ایک پیمانہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اسے دوبارہ کتنی مرتبہ دیکھا جا سکتا ہے ، اِس پیمانے پر صرف اصلی مولا جٹ پورااترتی ہے ، اُس کے مکالمے اِس قدر شاندار تھے کہ خود ناصر ادیب سے بھی دوبارہ ایسے مکالمے نہیں لکھے گئے ۔نئی مولا جٹ میں ایک بھی مکالمہ اُس پائے کا نہیں ، ایسے میں یہ فلم صرف اِس لیے کامیاب ہوئی کہ یہ اُن لوگوں کی پسند تھی جو یہ سمجھتے ہیں کہ صرف انہی کی پسند اِس ملک پر مسلط کی جانی چاہیے، افتادگانِ خاک جائیں جہنم میں۔۔ (بشکریہ جنگ)