تحریر: ہارون رشید
والدہ نے انھیں لیونے (پاگل) قرار دیا اور عدالت نے سزائے موت سنائی لیکن یہ شخص اپنی جوانی میں پاکستان کی صحافت میں ایک ایسا باب رقم کر گیا جو اپنے زوال کے باوجود لوگوں کے ذہنوں میں آج بھی تروتازہ ہے۔اسّی کی دہائی کے اس نوجوان نے صوبہ خیبر پختونخوا کی تاریخ میں پہلی اور شاید اب تک کے واحد قومی انگریزی اخبار ‘دی فرنٹیئر پوسٹ’ کی اشاعت شروع کی جس نے انتہائی مختصر عرصے میں وہ دھوم مچائی کہ سارا ملک اور بین الاقوامی دنیا اس کی شیدائی ہوگئی۔
ایک سیگریٹ سے مسلسل دوسری جلانے والا رحمت شاہ آفریدی آج لاہور میں اپنی کامیابیوں اور غلطیوں کا اپنے طور پر جائزہ لیتا دکھائی دیتا ہے۔ ان کے کھلے گریبان کی وجہ شاید ان کا سٹائل ہو یا کچھ اور لیکن پہلے اسیری اور اب لائم لائٹ سے ہٹنے کے بعد یہی کچھ انھیں مصروف نہیں رکھ رہا ہے۔ بلکہ وہ ہر وقت فرنٹیئر پوسٹ کی بحالی کی سوچ بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔وقت کے ستم نے تاہم اس سولہ سال کی عمر میں شادی کرنے والے شخص کی چھوٹی داڑھی سفید تو نہیں ہلکی سنہری ضرور کر دی۔فرنٹیر پوسٹ میں اسّی کی دھائی میں کبھی ون ٹو ون ملاقات کا موقع نہیں ملا لیکن انھیں ہمیشہ دفتر آتے جاتے ہی دیکھا تھا۔ ایک سے ایک مہنگی گاڑی سے ہم امپریس ہی رہتے تھے، لیکن گذشتہ دنوں لاہور کسی کام سے گیا تو ان کا کسی ذاتی کام سے اچانک فون آگیا۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ میں بھی فرنٹیئر پوسٹ میں رہ چکا تھا اور لاہور میں ہوں تو ملے بغیر واپس لوٹنے سے منع کر دیا۔
کبھی اخبار کی ملازمت کے دوران تو ان سے پوچھنے کا موقع نہیں ملا تھا لیکن اب سنہری موقع جان کر رضامند ہوگیا کہ ان سے پوچھ ہی لوں۔ میرے سوالات کوئی نئے نہیں تھے۔ یہ سب کچھ ایما ڈنکن نے سنہ 1989 میں شائع ہونے والی اپنی دلچسپ کتاب ‘بریکنگ دی کرفیو’ میں پوچھ لیے تھے۔ ان کا بھی ذہن یہ ماننے کو تیار نہیں تھا کہ ایک کاروباری شخص کے لیے حکومت نواز اخبار کیا زیادہ بہتر نہیں تھا بہ نسبت اس کے کہ وہ مارشل لاء اور کرپشن کرنے والوں کی کھال اتار دیں۔
لہذا گنگا رام ہسپتال کے قریب ان کی رہائش گاہ پہنچے۔ خود لینے سڑک تک آئے۔ بغل گیر ہوئے اور گاڑیوں کے ایک شو روم کے عقب میں ایک چھوٹے سے کمرے میں بٹھایا۔ گپ شب شروع ہوئی تو اس 60 سالہ ‘نوجوان’ نے بتاتے ہوئے کہا کہ وہ تو افغانستان میں ‘جہاد’ میں حصہ لے چکے ہیں۔ خوست اور مشرقی افغانستان کے کئی محاذوں پر رہ چکے ہیں، اور جن گروپوں کے ساتھ منسلک تھے ان میں گلبدین حکمتیار کی حزب اسلامی بھی شامل تھی۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ جہاد کے دوران انھیں معلوم ہوگیا تھا کہ یہ لڑائی پاکستان کے وجود کو ہی خطرے میں ڈال دے گی، لیکن اس بارے میں وہ کوئی زیادہ تفصیل بظاہر نہیں دینا چاہتے تھے لہذا اتنی ہی بات ہوئی۔پہلا سوال یہی تھا کہ پشاور جیسے شہر سے ایک انگریزی کا ضیاء مارشل لاء مخالف روزنامہ شروع کرنے کی سوچ کیسے آئی تھی۔ مزید ان کی کہانی انھی کی زبانی۔
‘میرا ستّر کی دھائی سے اٹھنا بیٹھنا اس وقت کے سینیئر صحافیوں کے ساتھ تھا۔ ان میں فیض احمد فیض بھی شامل تھے۔ احمد بشیر جیسے دو چار اور لوگ تھے۔ پشتو کے معروف ولی خاندان سے بھی تعلق رہا۔ غنی خان سے اکثر گفتگو ہوتی تو وہ اخبار کا مشورہ دیتے تھے۔ اس وقت ذوالفقار علی بھٹو کی گرفتاری پر مجھے غصہ بھی تھا کہ میڈیا اپنا کردار ادا نہیں کر رہا ہے۔ غنی خان بھی پشاور سے اردو اخبار کے حق میں تھے۔ پھر افغان جہاد میں بھی معلوم ہوا کہ پشتونوں کے لیے کچھ بھی اچھا نہیں ہو رہا ہے۔‘
‘مجھے دراصل اس وقت سے اردو کا اخبار شروع کرنے کا شوق تھا۔ بعد میں ‘میدان’ کے نام سے ڈیکلریشن بھی لی اور چلایا بھی۔ لیکن پشاور میں سینیئر صحافی مرتضیٰ نے انگریزی اخبار کا مشورہ دیا۔ ان کا موقف تھا کہ انگریزی اخبار بین الاقوامی سطح پر جانا جائے گا اور زیادہ بہتر ثابت ہوگا۔ اگرچہ ہم اردو میں بھی نکالتے تو اس کی بھی مقبولیت اتنی ہی ہوتی۔ خیر ہم مان گئے۔ اس وقت کے گورنر سرحد لیفٹنٹ جنرل فضل حق مرتضی کے دوست تھے تو انھوں نے ڈیکلریشن باآسانی حاصل کر لی۔’
میرا سوال تھا کہ ایک فوجی گورنر نے کیوں انھیں مارشل لاء کی ہی کلاس لینے یا ایک ایسے اخبار کی اجازت دی جس کا نعرہ ہی ‘سچ کو جھوٹ سے نہ چھپاؤ اور اگر سچ معلوم ہے تو اسے نہ چھپاو’ کافی نڈر تھا؟
گورنر فضل حق دور اندیش انسان تھے۔ ان کا خیال تھا کہ صوبے کے لیے انگریزی اخبار اچھا ہوگا اور چونکہ انھوں نے مستقبل میں سیاست میں آنا تھا تو ان کے لیے یہ اخبار اچھا رہے گا۔ 25 فروری 1985 میں اس کی اشاعت شروع ہوئی۔ اپنی بے باک صحافت کی وجہ سے انھیں سالانہ اس وقت کے ایک کڑور روپے سے زائد کا نقصان ہونے لگا لیکن ہم نے اپنا کام جاری رکھا۔اس نوزائیدہ اخبار کے لیے مدیر کا چناؤ شاید سب سے اہم فیصلہ تھا جس نے اخبار کی مقبولیت میں کلیدی کردار ادا کیا۔ عزیز صدیقی (مرحوم) کو یہ ذمہ داری کیوں اور کیسے سونپی؟۔۔فیض احمد فیض اور دیگر صحافیوں سے میں عزیز صدیقی صاحب کے بارے میں سنتا رہتا تھا۔ وہ ان کی بہت تعریف کیا کرتے تھے۔ وہ بطور اسسٹینٹ ایڈیٹر پاکستان ٹائمز میں رہ چکے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ میں نے آج تک ان جیسا طاقتور لکھنے والا، ان جیسا کردار والا اور ان جیسا پاک صاف اللہ کا ولی دوسرا ایڈیٹر نہیں دیکھا ہے۔ان سے دبئی میں ملاقات میں انھیں پشارو آنے کا کہا تو وہ فوراً پہنچ گئے۔ میں نے پشاور میں مکان اور دو گاڑیاں اور چند ملازم دیے تو انھوں نے ایک گاڑی واپس کر دی اور دوسری پرانی رکھ لی۔ ملازم بھی یہ کہہ کر واپس کر دیے کہ ان کی بیگم بہت اچھا کھانا پکاتی ہیں۔ تنخواہ کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے خود ہی گیارہ ہزار روپے مقرر کی۔ میں نے کہا یہ تو بہت کم ہے اور پچیس ہزار کی پیشکش کی لیکن انھوں نے ایک نہ مانی اور بات 15 ہزار پر فائنل ہوئی۔ اس وقت اخبار میں کوئی مقامی نہیں تھا۔ صدیقی صاحب نے ٹیم انتہائی دیانتداری کے ساتھ بنائی تھی۔جنرل فضل حق نے اجازت دی اور وہ ہی آپ کے سب سے بڑے دشمن کیسے بن گئے؟
خبریں تو یقیناً جنرل فضل حق اور ان کے مرکز میں استاد جنرل ضیا الحق کے خلاف تھیں۔ ان کی حکومتیں تھیں۔ تو دشمن تو انھوں نے بننا ہی تھا۔ انھوں نے تمام سرکاری دفاتر میں میرا اخبار بند کر دیا اور ایک آنے کا اشتہار دینے کی اجازت نہیں تھی۔ اوجڑی کیمپ جیسے واقعات میں نظر انداز نہیں کرسکتا تھا۔ اس کے حقائق مجھے معلوم تھے۔ میں نے خود اس کیمپ سے چرایا گیا اسلحہ خریدا تھا۔ اس کے بعد میں نے خبر شائع کی تھی۔ ظاہر ہے اس سے جنرل صاحب تو خوش نہیں ہوسکتے تھے۔
اخبار نے ایک ایسے علاقے میں جہاں اس سے قبل انگریزی صحافت کوئی زیادہ گہری جڑیں نہیں رکھتی تھی کیسے مقبولیت پائی؟میں انتہائی دیانتداری سے کہوں گا اس میں میرا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ جو اس وقت کی ٹیم تھی سو فیصد کریڈٹ اسے اور صدیقی صاحب کو جاتا ہے۔ میں نے اپنی پالیسی ایڈیٹر کو بتا دی تھی اور بس سب کچھ ان پر چھوڑ دیا تھا۔رحمت شاہ آفریدی کا جھکاؤ پیپلز پارٹی اور بے نظیر بھٹو کی جانب بظاہر زیادہ تھا۔ تاہم خبریں سب کے خلاف بغیر کسی جھجک کے چلائیں۔ انھیں مبینہ طور پر اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے ایک مبینہ ڈیل کی پیشکش کی تھی جو بقول ان کے انھوں نے مسترد کر دی تھی۔بس ان کا زوال شروع ہوا۔ کچھ اس میں ہاتھ ان کا اپنا بھی تھا جیسے کہ انھوں نے اخبار بعد میں ایسے لوگوں کے ہاتھ میں دیا جنھوں نے اس کا بیڑا غرق کیا۔ان کا کہنا ہے کہ نواز شریف کو انکار کی پاداش میں انھیں ساڑھے نو سال منشیات کے الزام میں قید بھی کاٹنی پڑی۔ رہائی کے بعد سے وہ اپنی زندگی وہیں سے دوبارہ شروع کرنے کی کوششوں میں لگے ہیں جہاں سے سلسلہ منقطع ہوا تھا۔ 2016 میں نواز شریف حکومت نے لاہور میں ‘دی فرنٹیئر پوسٹ’ کا ڈیکلریشن ایک سزا یافتہ مالک ہونے کی وجہ سے منسوخ کر دیا تھا جسے اب انھوں نے بحال کروا لیا ہے۔تاہم ان کے بڑے اثاثے بقول ان کے آج بھی منجمد پڑے ہیں۔ کروڑوں اخبار جیسے اپنے خواب پر لگانے والا آج بظاہر کہیں بھی نہیں کھڑا،لیکن ایک آفریدی ہونے کے ناطے ان کا قصہ ابھی تمام نہیں ہوا ہے۔(بشکریہ بی بی سی اردو)۔۔