تحریر: فیض اللہ خان۔۔
ان دنوں میڈیا پہ دو معاملات خاصے نمایاں ہیں فوج کا بجٹ میں کمی اور افسران کا تنخواہوں میں اضافہ نہ لینے کا فیصلہ ، جس کا اطلاق سپاہیوں پہ نہیں ہوگا دوسری بات عید کی مناسبت سے ہر چینل پہ اینکر مافیا کی انجمن ستائش باھمی کی مجالس سجی ہیں جس میں سب اپنے اپنے دوستوں کو بلاکر خوب حاجی بن رہے ہیں ۔
ایسے میں ان حالات پہ تبصرہ تجزیہ کرکے عوام کو مستفید کرنا مجھ ایسے دانشور پہ لازم ہے اور یہ آپکے بھائی کا آئینی قانونی اور مذھبی حق ہے , ۔روک سکو تو روک لو ۔فوج کی جانب سے بجٹ میں کمی یا مؤخر کرنے کے بعد ہم توقع لگائے بیٹھے ہیں درجہ اول کے اینکرز جنکی تنخواہیں دس لاکھ تا ایک کروڑ علاؤہ مراعات ہیں جیسا کہ گھر گاڑی نوکر چاکر بزنس کلاس کے ٹکٹس اور بیرون ممالک کے دورے وغیرہ ، درجہ دوم سوم چہارم کے اینکرز جو کہ تین تا آٹھ لاکھ کے ہیں یہ سارے چونکہ ملک و ملت کے غم میں دن رات لگاتار کڑھتے رھتے ہیں قوم کی زبوں حالی پہ روتے ہیں تھر کے بچوں کی اموات پہ سلگ اٹھتے ہیں کسی سیاست دان و جاگیردار کی جانب سے انسانی حقوق کی پامالی پہ تڑپ اٹھتے ہیں مزدورں کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک پہ بولے بغیر نہیں رھتے سو ایسے میں ان سارے غمخواروں کو اپنی اپنی تنخواہ کا کم از کم دس دس فیصد ادارے کے دیگر ملازمین پہ تقسیم کردینا چاھیئے جنکی تنخواہیں بارہ پندرہ ہزار سے شروع ہوکر ساٹھ ستر اسی ہزار یا لاکھ تک ہیں ۔۔۔
امید ہے کہ بھاشن بازی سے آگے بڑھ کر آپ اپنے نچلے اسٹاف کی بابت سوچیں گے اس طرح آپ اپنی باتوں کی عملی تصویر بھی بنیں گے اور ان ملازمین کی برطرفیاں بھی نہیں ہونگے جوکہ گزشتہ عرصے میں اے آر وائی کے سوا کم و بیش ہر جگہ ہوئی یا تنخواہوں میں کٹوتی کی گئی، آپ کی ننھی منھی قربانی انکے گھروں کے چولہے جلائے رکھے گی ۔۔۔
اب آجائیں اپنے عید پروگراموں پہ جہاں اینکرز اداکار کھلاڑی شاعر اور گلوکاروں کی تو جگہ ہے بلکہ ہمیشہ سے ہے مگر اس رپورٹر کی آپ کے پاس کبھی اوقات نہیں بنتی جسکی خبروں پہ لمبے چوڑے چیختے چنگھاڑتے پروگرام کرتے تجزیہ دیتے اور ریٹنگ لیتے ہیں۔۔کیا کبھی کسی اینکر ڈائریکٹر کنٹرولر یا پالیسی میکر نے سوچا کہ انہیں بھی بلایا جائے ، ان سے بھی پوچھا جائے کہ بغیر تنخواہ عید کیسی گزرتی ہے ؟ بیٹی کو چوڑی مہندی دلانے کے بجائے کیا آسرا دیا ؟ ماں بہن سے کیا جھوٹ بولا ؟ بیٹے کو کیا ٹوپی کرائی ؟ بیگم سے کیا غم بانٹا ؟ کیا کریانے والے نے شکل دیکھ کر کبھی مفت راشن دیا یا ہمیشہ دیگر گاھکوں کی طرح پیسے ہی لیکر یہ سب ملتا ہے ؟
اچھا اسے چھوڑیں ، بارہ پندرہ ہزار کے اس ڈی ایس این جی آپریٹر کیبل بوائے کیمرہ مین اور ڈرائیور کو ہی بلالیں جو گرمی سردی آسمانی و گولیوں کی بارش میں تاریں کھینچتا گاڑی ایمبولینس سے تیز تر چلاتا کیمرے سے اشک آور گیس کے گولوں کے درمیان عکاسی کرتا آپکے پروگرام کے لئیے بہترین فوٹیج تیار کرتا ہے جس پہ ٹھنڈے ٹھار کمرے میں بیٹھ کے منہ پہ غازہ سرخی پاؤڈر تھوپ کر بالوں میں جیل لگا کے سنجیدہ چہرے کیساتھ آپ رواں تبصرہ کرتے ہیں مگر اس ٹیم کو کریڈٹ دینا اپنی توہین سمجھتے ہیں جسکی محنت سے آپ کو یہ سب ملا {کبھی کھبار اینکر مافیا فیلڈ میں بھی اترتی ہے }
کیا کبھی اپنے اس اسٹاف کو اپنے برابر بٹھانے کا سوچا جو آپ کے لئِے تحقیق کرتا ہے مہمانوں کے ترلے منت کرتا ہے ، اسکرپٹ لکھ کر دیتا ہے جسے آپ سانس روکے بغیر پڑھتے چلے جاتے ہیں ۔۔۔ اس ڈیسک اسٹاف کو کبھی اہمیت دی جو آپکا تلفظ درست کراتا ہے آپکے لئیے پرکشش سرخیاں نکالتا ہے ، کیا وہ مہمان بننے کے اہل صرف اس وجہ سے نہیں کہ آپ کو بہترین مواد فراہم کرتے ہیں ٹیم کا شاندار حصہ ہیں ؟ بلاشبہ نچلے درجے کا یہ اسٹاف ((جس کا میں بھی حصہ ہوں )) مرجھائے چہرے سستے کپڑے پہنے ، سی کے گوچی ارمانی ڈال چی اینڈ گبانا گیونچی شینل وغیرہ کے پرفیوم نہیں لگاتا جبھی پسینے کی بدبو آتی ہے وہ برینڈز کے کپڑے جوتے نہیں پہن سکتا کیونکہ جیب ٹھیلے کا بن کباب کھانے کی اجازت دیتی ہے مگر اسے اپنے یہاں بلاکر اپنی تنخواہ کا کچھ حصہ ماہانہ اسے دیکر آپ مثال قائم کرسکتے ہیں اچھی باتیں ساری اور بہت ہوچکی آپکی جانب سے اب اپنے حصے کا کام کریں ۔۔اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ آپ جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کے حوالے سے مبینہ طور پہ مشہور ہیں مگر اصل بات تب بنے گی جب آپ اپنے ادارے میں ملازمین کو نکالے جانے تنخواہوں میں کٹوتی تاخیر سے ادائیگی اور انکریمنٹ لگانے کے حوالے سے مالکان کے سامنے ” کلمہ حق ” کہیں گے ، ورنہ ساری کہانیاں ہیں جانو۔۔۔۔
نوٹ :کوئی اینکر بھائی یہ نہ سمجھے کہ مجھے عید پروگراموں میں بیٹھنے کا شوق چڑق گیا ہے کیونکہ بظاہر تو میں سڑک چھاپ صحافی ہوں لیکن درجہ دوم سوم و چہارم کے اینکرز سے تو زیادہ ہی مشہور ہوں جیسا کہ میرا ،ریما ۔۔(فیض اللہ خان)۔۔
(فیض اللہ خان کراچی میں اے آر وائی سے منسلک صحافی ہیں۔۔اور کئی اہم موضوعات کا سفاکانہ پوسٹ مارٹم کرنے میں ثانی نہیں رکھتے۔۔ زیرنظر تحریر ان کی وال سے شکریہ کے ساتھ اڑائی گئی ہے، جس سے ہماری ویب اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں، یہ صرف عام میڈیا ورکر اور عوام کی دلچسپی کے لئے شائع کی جارہی ہے۔۔علی عمران جونیئر)