تحریر: محمود شام۔۔
پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں۔ قلم اور میری انگلیوں کا، پڑھنے والوں اور میری تحریر کا تعلق نصف صدی سے زیادہ عرصے سے ہے۔ کوئی بھی اگر تحریر یا شاعری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ملتا ہے تو خوشی سے دل و دماغ جھوم اٹھتے ہیں۔ حرف مطبوعہ (پرنٹ میڈیا) کا سر تاپا شکر گزار ہو جاتا ہوں کہ لاکھوں قارئین سے رابطہ اس کے ذریعے ہے۔ لیکن جب سے اتوار کو میں نے اپنی اولادوں اور پیاروں کے ساتھ گزارنے پر لکھنا شروع کیا ہے تو زیادہ پیار ملنا شروع ہوا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ میں کوئی پیغام دے رہا ہوں۔ زندگی کو ایک مقصد کے ساتھ گزارنے کی دعوت دے رہا ہوں۔ ابھی کچھ روز پہلے یونیورسٹی آف پشاور کے شعبۂ اُردو میں بھی ایک محترم پروفیسر نے میرا تعارف اس حوالے سے کروایا۔ جب بھی انسان لب کھولے یا کاغذ پر الفاظ رقم کرے تو اس کا کوئی مقصد ہونا چاہئے۔ آپ جب اتوار کے اتوار اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں سے ملیں تو ہر ہفتے ایک نیا پیغام دینے کی کوشش کریں۔ وہ چھ دن اپنے اسکول، کالج، یونیورسٹی میں نئی باتیں سنتے ہیں۔ نئے رویے دیکھتے ہیں۔ ٹی وی کی خبریں سنتے ہیں۔ ٹاک شوز دیکھتے ہیں۔ ان کے ذہن متاثر ہو رہے ہیں۔ سوچ کی نئی لہریں رواں ہو رہی ہیں۔ نئے سوالات جنم لے رہے ہیں۔ آپ کو ان سب کا احاطہ کرنا چاہئے۔ صرف اتوار برائے اتوار نہ ہو۔ اسی طرح مجھے سوچنا چاہئے کہ میں کالم برائے کالم نہ لکھوں۔ ٹاک شوز والے میزبانوں کو بھی دیکھنا چاہئے کہ پروگرام برائے پروگرام نہ ہو۔
بچوں کو بتائیں کہ تاریخ کے ہر موڑ پر جب بھی کسی نے نیا پیغام دینا چاہا تو اس کی آواز کس کس طرح دبائی گئی۔ پتھر مارے گئے۔ راستے بند کیے گئے۔ غیروں کی اور اپنوں کی حکومتوں نے بھی نقل و حرکت پر پابندی عائد کی، کبھی بولنے پر۔ پھر بھی قابو نہ ہو سکا تو جیلوں میں بند کر دیا گیا۔ پیغام روکنے کے لیے ملاقاتوں پر پابندی لگا دی جاتی تھی۔ کتابیں پڑھیں تو انکشاف ہوتا ہے کہ کتنی مشکل سے قید کاٹتے لوگ اپنے پیغام باہر بھیجتے تھے۔ سگریٹ کی ڈبیوں کے پنوں پر، ٹفن کیریئر میں کھانوں کے نیچے۔ انقلاب پیغام سے ہی آتا رہا ہے۔ اپنے لوگوں اور لیڈروں کے درمیان جب بھی پیغام رسانی کا رابطہ قائم ہو گیا۔ ایک لمحے کے لیے بھی کسی انقلابی لیڈر کو باہر کی دنیا سے بات کرنے کا موقع ملتا تھا تو وہ ایک جملے سے پوری قوم کو متحرک کر دیتا تھا۔ زمانے تھے کہ لیڈر بات کرنے کو ترستے تھے اور ان کے پروانے ان کی لب کشائی کے لیے بے تاب رہتے تھے۔ ایسی زبان بندی کے ادوار کو سامنے رکھتے ہوئے آج کے دَور پر نظر ڈالیں۔ یہ رابطے کی صدی ہے۔ ہماری اولادیں رابطے کی ٹیکنالوجی کو ہم سے زیادہ جانتی اور سمجھتی ہیں۔ ہر طرف باتیں ہو رہی ہیں۔ رابطے ہو رہے ہیں۔ ہاتھوں میں اسمارٹ فون ہر پل، ہر گھڑی پوری دنیا سے جوڑے رکھتا ہے۔ پھر ٹی وی ہے۔ ٹاک شوز ہیں۔ ہر شام چار پانچ گھنٹے مختلف لیڈر، وزرا، اینکر پرسنز، تجزیہ کار کھل کر بول رہے ہیں۔ 18سال ہوگئے ہیں۔ پرورشِ لوح و قلم ہی نہیں، زبان و بیان کی آزادی حاصل ہے۔ 7بجے شام سے پورا پاکستان بولنے لگتا ہے۔ ضرورت ہو تو کسی بھی لمحے بول سکتا ہے۔ ٹی وی سے چمٹے پاکستانی جانتے ہیں کہ کسی وقت بھی یہ آواز آجاتی ہے۔ بریکنگ نیوز۔ چلئے۔ لاہور چلتے ہیں۔ جہاں فلاں وزیر میڈیا سے گفتگو کر رہے ہیں۔ پھر چینل والے خود ہی مایوس ہوکر ایک دو جملے سنانے کے بعد واپس اسٹوڈیو میں آجاتے ہیں۔
میں تاریخ کا طالب علم ہوں اور پاکستان کی ہنگاموں اور سانحوں بھری تاریخ میں بہت سے المناک واقعات کا عینی شاہد بھی۔ مسائل ہی مسائل ہیں۔ المیے ہی المیے ہیں۔ اب 18سال سے ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ساٹھ ستر سال کے دیرینہ الجھے ہوئے معاملات کو ایک گھنٹے کے ٹاک شو میں طے کر دیں۔ ماہرین کے بجائے وہی سیاسی لیڈر مسئلے سلجھانے کے لیے موجود ہوتے ہیں جنہوں نے خود یا جن کے نانا دادا یا باپ نے یہ مسائل پیدا کیے تھے۔
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
بچپن میں ہم نے دیکھا کہ ہمارے دل بہلانے کے لیے بہروپیے گلیوں میں آتے تھے۔ نت نئے بھیس بدل کر ہاتھوں میں عجیب عجیب چیزیں لے کر۔ اب فیصل واوڈا ایک تسموں والا بوٹ لے کر آ جاتے ہیں۔ شرم آتی ہے۔ رونا آتا ہے کہ ہم کس حد تک گر گئے ہیں۔ کبھی ایک کونسلر بھی ذمہ داری کا احساس رکھا کرتا تھا۔ صوبائی وزیر کا بھی کیا رکھ رکھائو اور رویہ ہوتا تھا۔ وفاقی وزیر تو بہت ہی تدبر اور دانش کا پیکر ہوتا تھا۔
اب جب 24گھنٹے بولنے اور رابطے کی آزادیاں ہیں تو ہمارے پاس دینے کے لیے کوئی پیغام نہیں ہے۔ ہمارے دماغوں کے کھیت سوکھ گئے ہیں۔ دلوں میں کدورت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اینکر پرسن کو اپنی حیثیت کے تقدس اور طاقت کا اندازہ نہیں ہے۔ یہ ٹاک شوز لوگ عقیدت سے دیکھتے ہیں۔ فوراً بعد گھر والوں میں بحث شروع ہو جاتی ہے۔ اگلی صبح پارکوں میں سیر کے دوران ان ٹاک شوز کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ دفتروں میں، کلبوں میں، دوپہر کے کھانوں اور چائے میں یہ زیر بحث رہتے ہیں۔ اگر ریٹنگ کے علاوہ ملک و قوم کی بہتری مقصد ہوتا تو یہ ٹاک شوز ملک میں کتنی بڑی تبدیلی لا سکتے تھے۔مختلف شہروں میں جانے کا موقع مل رہا ہے۔ افسوس ہوتا ہے کہ عمران خان کے شیدائی، باریاں لینے والی پارٹیوں سے تنگ آکر عشق عمرانی میں مبتلا ہونے والے سخت مایوس نظر آرہے ہیں۔ کوئی متبادل قیادت بھی دکھائی نہیں دیتی۔ اس حبس میں وہ لُو کی دعا بھی نہیں مانگ رہے ہیں کیونکہ لُو میں بھی اب وہ تپش اور روانی نہیں رہی۔ خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں۔(بشکریہ جنگ)۔۔