تحریر: افضال ریحان۔۔
چھپے ہوئے الفاظ کی جو بھی اہمیت ہے الیکٹرانکس میڈیا کے طوفان نے بظاہر اسے بڑی حد تک روند ڈالا ہے۔ بالخصوص اہل مغرب تو بسوں اور ٹرینوں میں کھڑے بھی کتاب بینی میں مشغول ہوتے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ پڑھنے سے سننا یا دیکھنا چونکہ زیادہ آسان ہوتا ہے اور پھر اس کیلئے تعلیم یافتہ ہونے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہوتی، اس لئے ہمارے عوام پرنٹ میڈیا پر الیکٹرانکس میڈیا کو اتنی زیادہ ترجیح دیتے ہیں کہ جس کا کوئی تقابل ہی نہیں بنتا اگرچہ درویش جیسے پرانی وضع قطع اور روایات کے اسیر لوگ بھی خال خال مل جاتے ہیں جو خود کو اخبارات اور کتابوں کا رسیا خیال کرتے ہوئے، ٹی وی زیادہ اس لئے نہیں دیکھتے کہ اس میں ٹائم کی ان پٹ یا انویسٹمنٹ زیادہ اور نالج کی آؤٹ پٹ کم ہوتی ہے، یا یہ کہ الیکٹرانک میڈیا کے بعض اینکر پرسنز میں بالعموم حرارت زیادہ اور روشنی کم ہوتی ہے۔ہمارے ٹی وی پروگرامز تشکیل دینے والوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ سب لوگ محض ڈھول ڈھمکا یا لہو و لعب (تفریحات) ہی نہیں دیکھنا چاہتے اور نہ روایتی مقامی خبروں یا لوکل نوعیت کے مباحثوں پر گزارہ کرنا چاہتے ہیں۔ علاوہ ازیں اینکرپرسنز کے طور پر جو لوگ سکرینوں پر براجمان ہوتے ہیں چند کو چھوڑ کر واقعات و حقائق سے متعلق ان کی سٹڈی بالعموم سطحی ہوتی ہے۔ یوں انہیں چند لمحات برداشت کرنا یا رسمی و کچی باتوں پر وقت برباد کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ بولنے میں سلیقہ یا ایک طرح کا بہاؤ Flow بڑی اچھی صلاحیت ہے لیکن کوئی عقل یا نالج کی بات بھی ناظرین کے پلے پڑنی چاہئے۔ عوام کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ تو سارے کے سارے کالانعام ہیں اور یہ اینکر پرسن کوئی ماورائی مخلوق ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کو انتہا پسندی اور پارٹی بازی سے بھی ایک مناسب حد تک پرہیز کرنا چاہیے۔ آپ جو بھی موقف اختیار کریں اس میں ایک نوع کی منطق یا استدلال کو حاوی نظر آنا چاہئے۔
قومی مفاد اور انسانی حقوق میں ایک نوع کا توازن بھی ضروری ہے، کسی بھی ملک میں قومی مفاد یعنی نیشنل انٹرسٹ کو اس قدر حاوی نہیں ہونا چاہیئے کہ وہ انسانیت کے مقابل کھڑے ہوجائیں، جیسے کہ ہم دیکھتے ہیں آمرانہ حکومتوں میں، چاہے وہ عسکری اسٹیٹ کی ظالمانہ صورت میں ہوں، شاہی استبداد کے نیچے دبی ہوں ، کمیونسٹ جبر کے زیر اثر ہوں یا پھر کمزور جمہوریتوں کی صورت کام کر رہی ہوں، قومی مفادات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے، چاہے انسانیت اس کے بوجھ تلے سسکتی رہے۔ دوسری جانب ہیومن رائٹس کے نعرے لگاتے ہوئے بھی کسی ملک کے اقتدار اعلیٰ کی پاسداری میں اس کے نیشنل انٹرسٹ کی ایک حد تک لحاظ داری یا پاسداری سے انکار کسی صورت نہیں کیا جا سکتا۔ ہر صحافی یا اینکر پرسن کو اس حساس فیلڈ میں داخل ہوتے ہی اس بات کا حلف اٹھانا چاہیے کہ اول میرے سامنے سچائی سے مقدس کوئی چیز نہیں ہو گی۔ دوم کچھ بھی ہو جائے میں مظلوم کا ساتھی و سہارا بنوں گا، چاہے وہ کسی بھی رنگ و نسل، زبان یا مذہب و عقیدے کا حامل ہو۔سوئم میں جس قدر سوسائٹی کے دبے ہوئے کمزور طبقات کا ساتھ دوں گا اس لگن اور جذبے کے ساتھ حاوی یا زورآور طبقے کے سامنے سٹینڈ بھی لوں گا یا اس کی پوری ایمانداری سے کوشش کروں گا۔ آج اپنے ایک پسندیدہ اینکر پرسن کو سپاسنامہ پیش کرنے کیلئے قلم اٹھایا تھا لیکن بات دوسری طرف چلی گئی درویش نے اگر دی بیسٹ اینکر پرسن کا ایوارڈ دینا ہو تو وہ بلاتامل شاہ زیب خانزادہ کا نام لے گا جو اتنے اعتماد اور تیاری کے ساتھ اپنا پروگرام پیش کرنے آتے ہیں کہ دیگر نوجوان اینکرز کو ان سے سیکھنا چاہیے۔ ابھی اس نوجوان کے صرف دو ہی پروگرام دیکھے تھے کہ شامی صاحب کے دفتر میں میر صاحب سے پرسکون ملاقات کا موقع مل گیا اور یہ بھانپتے ہوئے کہ میر صاحب کامران خان کے جانے سے کچھ افسردہ ہیں عرض کی میر صاحب یہ جو نیا لڑکا خانزادہ آپ لائے ہیں۔ ناچیز نے اس کا پروگرام دیکھا ہےاوراس کے اندر اتنی صلاحیت محسوس کی ہے کہ مستقبل میں آپ خوش ہو جائیں گے۔ آپ کے پروگرام کو یہ نوجوان کامران خان کے پروگرام سے اوپر لے جائے گا۔ الحمدللہ آج گنہگار کو خوشی ہے کہ اس کی پرکھ درست تھی ،کیونکہ اگر قومی سطح پر سروے کروایا جائے تو یہی رزلٹ نکلے گا ان کا پروگرام کیوں اور کیسے اتنا موثر ہے؟(بشکریہ جنگ)۔۔