anchors bane mia khalifa nahi

اینکرز بنیں، میاخلیفہ نہیں۔۔

تحریر: شمعون عرشمان۔۔

سب سے پہلے تو معذرت کہ تحریر کا عنوان اس قدر سخت رکھا ہے۔۔ لیکن حقیقت بھی یہی ہے، ٹی وی پر آنے کے شوق میں اینکرز مسلسل پستی کی جانب گامزن ہیں۔۔ ان دنوں سوشل میڈیا پرنجی ٹی وی چینل جی این این کی خاتون نیوزاینکر کی تصویروائرل ہورہی ہے جس نے ہنگامہ برپا کر رکھا ہے ۔ نیوز اینکر نے بلیٹن کے دوران ہلکے گلابی رنگ کا بے باک لباس زیب تن کیا ، خاتون کی قمیض اتنی باریک تھی کہ ان کے نیچے پہنے گئے مخصوص کپڑے بھی دکھائی دے رہے تھے ، جیسے ہی منظر لوگوں نے دیکھا تو سوشل میڈیا پر ہنگامہ سا برپا ہو گیا اور لوگوں نے غم و غصے کے اظہار کے ساتھ مشورے بھی دینے شروع کر دیئے۔۔ صارفین کا کہنا تھا کہ ۔۔

جب ٹی وی چینلز پر اس طرح کے کپڑوں میں پروگرام ہوں گے تو پھر جنسی تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ ہوگا ، عمران خان خدارا میڈیا کی بے حیائی پر ہاتھ ڈالیں ، جنسی تشدد اور ذہنی خرابی کا اصل باعث بے حیائی اور فحاشی ہے ۔۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ۔۔ یہ معاشرے کی گھٹن زدہ پرورش کا مسئلہ ہے ، اگر یہ ہی مسئلہ ہوتا تو مغربی ممالک میں پاکستان اور سعودی عرب سے زیادہ ریپ ہوتے مگر حقائق الٹ ہیں ،پاکستان روزانہ 10 ، سعودی عرب 12 اور پورے یورپ میں 6 ریپ کیسز روزانہ رپورٹ ہوتے ہیں ۔کسی نےخاتون اینکر کی حمایت کرتے ہوئے سوال کیا کہ ۔۔  مدرسوں میں بچے کس قسم کے کپڑے پہنتے ہیں کہ ان کا ریپ ہوتا ہے ؟ ایک اور حمایتی نے کہا۔۔ خدا ان گندی نظروں والوں کو ہدایت دے کہ اپنے کام سے کام رکھیں ۔ان کپڑوں میں کیا غلط ہے ؟ اپنی سوچ کو تبدیل کریں ۔ ایک صاحب بولے۔۔ میرے نزدیک یہ لباس اخلاقیات سے مخالف ہے ، میں اس اینکر اور ٹی وی چینل کے خلاف اپنی شکایت درج کروا رہاہوں ، ایسا کچھ بھی ملکی ٹی وی چینلز پر نہیں دکھایا جانا چاہیے ۔

کافی عرصہ پہلے کی بات ہے ایک اشتہار کچھ اس طرح سے بنایا گیا۔۔ایک لڑکا ڈانس کرتے ہوئے ساتھی لڑکی کے انڈر وئیر کا رنگ بتا دیتا تھا۔ ایک “شوخی” لڑکی سٹیج پر آئی اور ڈانسر نے بتایا کہ تم نے تو کوئی انڈروئیر پہنا ہی نہیں جس پر وہ شرم کے مارے بیہوش ہوگئی۔ یہ دراصل چیری بلاسم کا اشتہار تھا جس کا مقصد اس کی پالش سے جوتے آئینہ بن جاتے ہیں۔ لیکن اس اشتہار پر فحاشی کا مقدمہ ہو گیا۔ یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے چالیس سال قبل امروز اخبار میں مضمون نگار نے لکھا کہ اب یہی بات وہ اپنے کالم میں لکھ رہے ہیں اوراب یہ بات فحاشی کے زمرہ میں نہیں آتی۔۔ خاتون اینکر کے لباس کے حوالے سے کچھ لوگوں کے خیالات سی سی پی او لاہور کی طرح تھے، آپ کو یاد ہوگا کہ موٹروے کیس میں بھی سی سی پی او لاہور نے ابتدائی بیان میں زیادتی کا ذمہ دار خاتون کو ہی قرار دیا تھا کہ وہ رات کو اتنی دیر سے کیوں نکلیں اور اگر جانا ہی تھا تو جی ٹی روڈ استعمال کرتی جہاں پررش ہوتاہے بعدازاں انہوں نے اپنے بیان پر معافی بھی مانگی ۔

خاتون اینکر کے حمایتی کچھ زیادہ ہی روشن خیال اور لبرل واقع ہوئے ہیں اس لئے ان کا کہنا ہے کہ پردہ تو آنکھوں کا ہوتا ہے، کچھ نے اسے خاتون اینکر کا ذاتی مسئلہ قرار دے دیا۔۔ واقعی لباس کسی بھی انسان کا انفرادی مسئلہ ہوتا ہے لیکن جب وہی انسان کسی پبلک پلیٹ فارم پر ہوتا ہے تو پھر اسے لباس کا بطور خاص خیال رکھنا پڑتا ہے، ایسا نہیں ہوتا کہ کسی کی میت پر زرق برق لباس اور بھرپور میک اپ کرکے جایا جائے، یا شادی کی تقریب میں گھر کے کپڑوں میں شرکت کی جائے۔۔ آفس جاتے وقت دو پٹی کی چپل پہن لی جائے۔۔ یعنی ہر جگہ کی اپنی ایس او پی ہوتی ہے۔۔ جب کوئی خاتون اینکر ٹی وی اسکرین کی زینت بنتی ہے تو سب سے پہلے یہ دیکھاجاتا ہے کہ وہ چینل کون سے ملک کا ہے، وہاں کہاں تک کی آزادی ہے۔۔ اسلامی جمہوریہ ملک میں کسی بھی خاتون اینکر کا قابل اعتراض لباس بالکل نہیں چل سکتا۔۔ مثال کے طور پر ریحام خان جب بی بی سی  پر موسم کا حال سنایا کرتی تھیں تو اسکرٹ پہنتی تھیں، پھر جب پاکستانی چینلز پر اینکرنگ کرنے لگیں تو سر بھی ڈھانپنے لگیں۔۔جی این این کی خاتون اینکر نے جو لباس زیب تن کررکھا تھا، کیا وہ پیمرا کے قوانین کے مطابق تھا؟؟ریٹنگ اور ٹی آر پی لئے گہرے گلے کا لباس، سلیولیس، یا ایسا لباس جس سے جسم کے اعضا نمایاں نظر آئیں، پیمرا کا قانون قطعی اجازت نہیں دیتا کہ کوئی بھی خاتون اینکر ایسا لباس پہنے۔۔ اب اگر آپ کو شوق ہے کہ دکھیں گے تو بکیں گے والے فارمولہ کے تحت کسی بھی انتہا پر چلے جانا ہے، تو پھر اس سے بہتر ہے کہ اینکرنگ چھوڑ کر کوئی اور کام کرلیں۔۔

گندی سوچ، گندی نظر کا کہہ کر یا اس کی آڑ لے کر آپ جو مرضی کریں اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔۔۔ یہ مسلمان ملک ہے، ہر چیز حد میں رہے تو اچھی لگتی ہے۔۔ یہاں حال یہ ہے کہ اگر انصارعباسی پی ٹی وی پر مرد ٹرینر کے ساتھ ایکسرسائز کرنے والی لڑکی کی تصویر ٹوئیٹ کرکے صرف ایک جملہ لکھتا ہے کہ کیا پی ٹی وی ہے؟ تو سارے لٹھ لے کر اس کے پیچھے پڑجاتے ہیں۔۔ کیا آپ میں سے کوئی اپنی بہن، بیٹی کو ایکسرسائزکرانے  کے لئے مرد ٹرینر رکھے گا؟؟ منافقت کی انتہا، اپنی نجی زندگی میں سب حاجی ثنا اللہ بن کر خودساختہ اصول و ضوابط کے خول چڑھائے رہتے ہیں لیکن جب سوشل میڈیا پر بات کرتے ہیں تو پھر ان سے زیادہ روشن خیال اور لبرل کوئی نہیں ہوتا۔ کیا آپ لوگوں نے وینا ملک، ریما کو رمضان نشریات میں دوپٹہ اوڑھے اسلامی باتیں کرتے نہیں دیکھا؟؟  کیا آپ لوگ ان دونوں اداکاراوں کو نہیں جانتے؟؟

بات اینکرنگ کی ہورہی تھی، ٹاپک پر ہی رہتے ہیں۔۔۔ کسی بھی چینل کا میک اپ روم ایسا نہیں جہاں مردحضرات خواتین کا میک اپ نہیں کرتے۔۔ کسی بھی چینل پر کوئی بھی اینکر اپنی مرضی کا لباس پہن کر آن ائر نہیں ہوسکتا، کسی بھی چینل پر جب بلیٹن ہوتا ہے تو اسے چلانے والے ایک دو نہیں کئی افراد ہوتے ہیں، سب تجربہ کار لوگ ہوتے ہیں انہیں علم ہوتا ہے کہ ہماری حدود کیا ہیں، پالیسیاں کیا ہیں؟ سیلف سنسرشپ کی حس بیدار رکھتے ہیں، پھر سمجھ سے بالاتر ہے کہ خاتون اینکر کے لباس پر کسی نے توجہ کیوں نہیں دی؟؟ آپ ایسے لباس اپنے گھر میں پہنیں، نجی محفلوں میں، تقریبات میں پہنیں، لیکن جب آپ ٹی وی اسکرین پر ایسے لباس میں آئیں گی تو انگلیاں لازمی اٹھیں گی، کیوں کہ ٹی وی ہماری فیملی دیکھتی ہے، اور ٹی وی اسکرین پر آنے کے بعد آپ صرف خاتون کا ٹیگ لگا کر بچ نہیں سکتیں، آپ پبلک پراپرٹی ہوتی ہیں، آپ پر بات ہوگی، دھڑلے سے ہوگی۔۔۔ میرا جسم میری مرضی والی سوچ سے باہر نکلیں، پی ٹی وی کی بھی خواتین نیوز اینکرز ہوتی تھیں، مہ پارہ صفدر، شائستہ زید، عشرت فاطمہ، ثریاشہاب۔۔ ان سے ہی کچھ سیکھ لیں، لباس کیسا پہنا جاتا ہے؟ پی ٹی وی کی خواتین اینکرز کی آج بھی عزت ہے لیکن آپ لوگ شاید اپنی عزت کرانا جانتے نہیں۔۔۔ جس طرح اداکارائیں میا خلیفہ اور سنی لیونے ہیں اور دیگر بھی اداکارائیں ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ میا خلیفہ اور سنی لیونے کچھ بھی کرنے کو تیار رہتی ہیں۔۔ پلیز میا خلیفہ نہ بنیں۔۔ اپنی حدود میں رہیں تو زیادہ اچھا ہوگا۔۔۔

آخر میں صرف اتنا کہوں گا کہ کسی کو کوئی بات بری لگی ہوتو معذرت، میڈیا سے تعلق رکھنے والے لازمی میری باتوں سے اتفاق کریں گے اور اس بات سے بھی لازمی اتفاق کریں گے کہ خواتین اینکرز کے حوالے سے کیا کیا اور کیسی کیسی کہانیاں سینہ بہ سینہ میڈیا ہاوسز میں گھومتی رہتی ہیں۔۔ لیکن وہ سب آن اسکرین نہیں ہوتا اس لئے میں یہاں وہ سب بیان نہیں کررہا۔۔ آپ اپنی نجی محفلوں، تقریبات، گھروں میں کچھ بھی کریں، کچھ بھی کھائیں،پیئیں اور رہیں۔۔۔ لیکن جب آن اسکرین آئیں تو خیال رکھیں کہ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔۔ شاید کہ میری بات ترے دل میں اترجائے۔۔(شمعون عرشمان)

(مصنف کی تحریراور اس کے مندرجات سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔۔

انسٹاگرام  اب فیس بک جیسا فیچر متعارف کرائے گا۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں