تحریر: منصور آفاق۔۔
انیس سو ترانوے میں جب میں نے عطاالحق قاسمی کے فن و شخصیت پرکتاب لکھی توکئی ماتھے تیغ تیور ہوئے ۔ایک دوست نےتو میرے خلاف بہت کچھ لکھابھی ،جواب میں نے لکھا تھا۔ میرتقی میر پر کوئی کتاب نہیں لکھی گئی ۔غالب کےمتعلق بھی پہلی کتاب اس کی وفات کے بعد الطاف حسین حالی نے لکھی تھی۔ن م راشد اور مجید امجد جیسے شاعروں پر ان کی زندگی میں کوئی کتاب نہ لکھی جا سکی ۔حتیٰ کہ احمد ندیم قاسمی تک کو یہ کہنا پڑا
عمربھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
میں اسی لئے ضیاالحق نقشبندی کو اپنے قبیلے کا آدمی سمجھتا ہوں ۔ ہم جیسے لوگ اس عہد ِ منافرت میں غنیمت ہیں، جو صاحب کمال کے کمال ِ فن کا اعتراف اس کی زندگی میں کرتے ہوئے اپنی محبتوں کے پھول نچھاور کرتے ہیں ۔مجھے یہ سوچنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ سہیل وڑائچ کون ہیں ۔وہ کہاں پیدا ہوئےتھے ،کب پیدا ہوئےتھے ۔میرے لئے یہی کافی ہے کہ سہیل وڑائچ ایک سچے انسان ہیں اور انسانوں کے اس عالمگیر خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جن کے دل دھڑکتے ہیں ۔جن کی آنکھیں دوسروں کے درد پر نم ہوتی ہیں ۔جو ہمیشہ صبحوں کے خواب دیکھتے ہیں۔ جن کے قلم سے روشنی نکلتی ہے ۔
مجھے ایک چھوٹا سا بچہ گالف ریڈ مائر یاد آگیا۔ بہت سال پہلے بنجمن فرینکلن پر مختصر سے مختصر مضمون لکھنے کاعالمی مقابلہ فرینکلن لائبریری والوں نے منعقد کرایا تھا،فرٹے دی سکاٹ کے جس مضمون کو سب سے بہتر قرار دیا گیااس میں یہی دوچار جملے تھے۔’’میں تمام رات بنجمن فرینکلن پر مضمون لکھنے کی کوشش کرتا رہااور صبح اٹھ کر جب میں اپنے گھر کے لان میں آیاتو دیکھا کہ میرا بیٹا گالف ریڈمائر ادھر ادھر بھاگتا پھر رہا ہے وہ اپنی مٹھی بند کرتا ہے اور پھر کھول دیتا ہے۔پوچھا کہ یہ کیا کر رہے ہو ،کہنے لگا۔سورج کی شعاعوں کو قید کر رہا ہوں ۔سورج کی شعاعوں نے تو کب قید ہونا تھامگر میری سمجھ میں آگیا کہ بنجمن کی ہزار پہلو شخصیت پر کچھ لکھناسورج کی کرنوں کو مٹھی میں بند کرنے کے مترادف ہے‘‘۔
سہیل وڑائچ پر کچھ لکھتے ہوئے مجھے یہی احساس ہوا ۔وہ ایک ہشت پہلو شخصیت ہیں، باکمال نثر نگار ہیں۔بے مثال صحافی ہیں ۔ لاجواب اینکر پرسن ہیں۔سیاسی تجزیوں میں حرفِ آخر سمجھے جاتے ہیں۔ سیاست پر ان کی نظر انتہائی گہری ہے۔انہوں نے ’’قاتل کون ’’ اور’’غدار کون‘‘ جیسی لافافی کتابیں تاریخ کے سپرد کی ہیں۔بے شک وہ زیادہ تر صحافیانہ نثر لکھتے ہیں مگر جب کہیں انہیں ادبی نثر لکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی توانہوں نے کمال کے در وا کر دئیے۔ مجھے یاد ہے جب انہوں نے جشن منصور آفاق میں مضمون پڑھا تھا تولوگ حیرت سے انہیں دیکھتے تھے ۔ مجیب الرحمن شامی بھی وہاں موجود تھے ۔ان کی گواہی تو خاصی معتبر ہے ۔بحیثیت اینکر ایک زمانہ ان کے مخصوص انداز کا معترف ہے مگر وہ واحد اینکر ہیں جن کا ڈائیلاگ ’’کیا یہ کھلا تضاد نہیں ‘‘ ضرب المثل میں بدل گیا ہے۔یقین کیجئے میں ان کا پروگرام ایک دن جیو کے ساتھ دیکھتا ہوں تو اکثر سوچتا ہوں کہ سہیل وڑائچ نے اداکاری کے شعبے کو اپنایا ہوتا توان کا شمار برصغیر کے اہم اداکاروں میں ہوتا۔سہیل وڑائچ رازوں بھراخزانہ ہیں۔ان کے سینے میں نجانے کیا کیاموجود ہے ۔وہ بڑی تحقیق اور جستجو سے کام کرتے ہیں ۔محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل پر سہیل وڑائچ کی کتاب’’قاتل کون‘‘پڑھ کر اندازہ ہوجاتا ہے کہ محترمہ کا قاتل کون ہے مگر سہیل وڑائچ نے صرف حقائق بیان کئے ہیں کوئی فیصلہ نہیں دیا۔
ان کی ایک اور کتاب’’غدار کون‘‘بھی جب عدالت عالیہ کے کٹہرے میں پہنچی توپرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل سکس لگادیا گیا ۔میں نے ان کے ساتھ خاصا وقت گزارا ہے ۔پاکستان میں بھی اور پاکستان کے باہر بھی ۔ مجھے ان کے پاس ہمیشہ سلگتے ہوئے سوال ملے ہیں۔جوگھٹا ٹوپ اندھیروں میں امیدوں کےچراغ جلاتے ہیں۔
اس وقت الیکشن کی آمد آمد ہے۔سہیل وڑائچ سے زیادہ کوئی صحافی ایسا نہیں جو پاکستان کے ہر حلقے کے متعلق تفصیلی معلومات رکھتا ہو۔ماضی میں انہوں نے جس حلقے کے متعلق جو پیشن گوئی کی زیادہ تر نتائج انہی کے مطابق سامنے آئے۔پہلی بار ایسی صورت حال ہے جو میرے نزدیک ایسی ہے کہ سہیل وڑائچ جیسی شخصیت درست نتائج بتانے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔پاکستان کا اگلا وزیر اعظم اگرچہ سب کو نواز شریف نظر آرہا ہے مگر کئی سوال ایسے ہیں جن کے جواب سہیل وڑائچ کے پاس بھی نہیں۔
امریکہ کے معاملات پر بھی سہیل وڑائچ اتھارٹی ہیں اور اس ملک میں بھی ان کا اثر ورسوخ کم نہیں۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے دور ےکے کیا نتائج برآمد ہونے ہیں،یقیناً سہیل وڑائچ سمیت سب کی نظریں اسی بات پرلگی ہوئی ہیں۔ الیکشن کمیشن اور نون لیگ کے درمیان مراسم میں مسائل پیدا ہوئے۔احد چیمہ کو مشیر کے عہدے سے ہٹادیا ۔دو لوگ اور بھی زد میں ہیں۔لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورت حال میں سہیل وڑائچ کےوہ کالم حقیقت کے قریب لگنے لگے ہیں جن میں انہوں نے عرفان صدیقی کے ساتھ کالمانہ مکالمہ کیا تھا۔(بشکریہ جنگ)۔۔۔