تحریر: شکیل بازغ
ایک اہم سوال کا عام سا جواب ملتا ہے جو سکرین پر نظر آئے اور نیوز یا پروگرام پیش کررہا ہو۔ درست لیکن ظاہر ہے علم و تجربے کا فرق اور پھر وہ اعصابی جنگ، انہیں ریڈر سے بڑا صحافی ہونے تک کے عہدوں میں درجہ بندی کرتا ہے۔ ہم یہاں کسی لمبی بحث میں جانے سے گریز کرتے ہوئے یہ بات جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ جو سکرین پر نیوز یا پروگرام پیش کررہا/رہی ہے اسکی اہلیت و قابلیت کا معیار کیا ہونا چاہیئے۔اور وہ اس حصول کیلئے کیا کرے۔ اس ضمن میں ہمارے قابل دوست اسد اللہ خان نے (موضوع پر) اپنے پہلے ویڈیو پیغام میں بھی اینکرپرسن کی اہلیت کے حوالے سے چیدہ چیدہ نکات سے ناظرین کو آگاہ کیا۔ کچھ اپنے مشاہدے کی بنا پر بات آگے بڑھاتا ہوں۔ساتھ چند طریقے بھی عرض کروں گا جس سے نئے کھلاڑیوں کی رہنمائی ہوسکے۔ دیگر اضافہ کرکے اس ادھورے مضمون کو تکمیل بخش سکتے ہیں۔۔چونکہ اینکر پرسن کسی بھی برقی صحافتی ادارے کا چہرہ ہوتا ہے اس لیئے اسکا قابل ہونا بہت ہی اہم ہے وگرنہ ادارے کے تشخص پر حرف آتا ہے۔
قابل اینکر سے کیا مراد ہے۔ میری ناقص رائے یہ ہے کہ اسے ورسٹائل ہونا چاہیئے۔کیونکہ کبھی بھی کسی بھی وقت کسی بھی موضوع پر اسے ناظرین سے مخاطب ہونا پڑسکتا ہے اسکے لیئے بنیادی باتیں جو ایک اینکر میں ہونی چاہیئیں وہ درج ذیل ہیں (دوستوں کو چند نکات غیر اہم بھی محسوس ہونگے لیکن اسے نئے اینکرز کیلئے ٹارگٹ کے طور پر لینے دیں جس سے یقیناً انہیں بہترین اینکر پرسن بننے میں مدد ملے گی)
قابل اینکر پرسن کون ہے بننے کیلئے کیا کرے۔۔ میں دوہزار تین میں پنجاب لائبریریز کے ڈائریکٹر عبدالجبار شاکر صاحب کے پاس اپنی شاعری کا مسودہ برائے اصلاح لے گیا۔ ساتھ ہی انکی تحریری رائے کی بھی درخواست کی بڑی محبت سے انہوں نے سخنے چند لکھ کردیا۔ ساتھ ہی کہا بیٹا مطالعہ وسیع کریں۔ ابھی آپ گا لو جتنا۔گاسکتے ہو۔ جب گانا آگیا تو گایا نہیں جائے گا۔ انکا اشارہ تھا کہ طبیعت میں روانی تو ہے لیکن الفاظ میں۔کشش کا ساماں کرنے کیلئے سالہا سال کی ریاضت درکار ہے۔ اس بات کو سولہ سال ہوگئے اس کتاب کے بعد اپنے تئیں کئی کتابوں کا مسودہ لکھ چکا پر اشاعت کا حوصلہ نہیں پڑتا یا پھر کم فہمی کا خوف غالب رہتا ہے۔ کہ نہیں ابھی اور مطالعہ۔ ابھی اور۔۔۔۔
اینکر پرسن کا مطالعہ وسیع ہوتا ہے۔ میں وہ حرف بول ہی نہیں سکتا جو نہ میں نے کبھی پڑھا اور نہ سُنا ہو چونکہ اینکر کا کام قوائد و ضوابط کے تحت بولنا ہے اسی سے اسکا رزق بندھا ہے اس لیئے ضروری ہے کہ اسکا ہر شعبہءِ زندگی سے متعلق کم از کم بنیادی جانکاری ہو۔ اسکے لیئے اسے روزانہ کم از کم پندرہ کالمز پڑھنے چاہیئیں۔ اس مشق سے اسے خبر سے متعلق سیاق و سباق جاننے میں مدد ملے گی۔ کالمز پڑھتے وقت صرف معلومات اکھٹی کرنے پر توجہ مرکوز رکھی جائے تو content کو غیرجانبدارانہ طور سے بڑھانے میں مدد ملے گی اسکے علاوہ کُتُب خصوصاً سیاستدانوں کی آٹو بائیوگرافیز، انٹرنیٹ سے نامور سیاسی و سماجی شخصیات کے حالاتِ زندگی پر مہیا پروفائلز پڑھنا، اُم الکتاب احسن الکلام کا بغور مطالعہ۔دنیا کے انقلابات، یونانی لٹریچر اردو ادب کے مضامین و کُتُب پاکستانی حکومتی سیٹ اپ بارے تفصیل سے پڑھنا کم از کم گذشتہ تین حکومتوں کے وزراء کے قلمدانوں کی جانکاری ہونا اور پھر پڑھنے سے بولنے میں دلیل اور وزن ہوگا۔
اینکر وہ جو بہترین سوالات داغنے کا ماہر ہو۔ اسکے لیئے ضروری ہے کہ وہ ہر وقت مختلف موضوعات پر تحقیق اور برائے مشق دس دس سوالات لکھنے کی مشق کرے۔ مثلاً قومی و صوبائی کابینہ کے وزراء سے فرضی مختصر انٹرویو پر دس سے بیس سوالات نامہ لکھا جائے
اپنی جسامت پر توجہ دی جائے۔ کہ کیمرے کے سامنے بیٹھے یا کھڑے جسم بےڈول و فربہ محسوس نہ ہو۔ آواز میں بھاری پن اور throw ہونے سے بات میں اثر پیدا ہوتا ہے۔ اسکا اصول یہ ہے کہ پیٹ سے پڑھا جائے نہ حلق سے اور نہ ناک میں۔ اس کیلئے آواز کی مشق روزانہ کی بنیاد پر کی جائے۔ اول تو یہ کہ عام زندگی میں بھی بھاری آواز میں ہی بولا جائے اسکے علاوہ مشقیں تو کئی ہیں لیکن بالکل بنیادی اور موثر مشق
Vowel words A E I. O U
کو HAY۔۔۔۔HE۔۔۔HA۔۔۔HO۔۔۔HOO
سے بدل کر ایک ایک آواز کو پوری قوت سے نکالا جائے یہ وہ آوازیں ہیں جس سے vocal cords کو تکلیف پہنچے گی۔ یہی مقصود ہے۔گلے میں خراش، سوجن، خون آنا جیسے مسائل کا سامنا مشق کی درستی کی علامات ہیں۔مشق. کا شور اطراف میں نہ پھیلے اس کیلئے مٹی کا گھڑا گھر میں رکھا جائے جس میں منہ ڈال کر مشق کی جائے تو سمع خراشی کی اذیت سے لوگ بچے رہیں گے۔
تلفظ کی درست ادائی کا ہونا بھی کم اہم نہیں۔ سادہ سا اصول یہ ہے کہ ہر حرف (حروف تہجی) کو اعراب کی درستی کیساتھ مخرج (آواز نکلنے کی جگہ) سے ادا کیا جائے اس سے لہجہ اور اردو بھی درست ادا ہونگے۔ اردو زبان پر بولتے وقت اتنا ہی دباو ڈالے جتنا کہ ایک مور کا پر لب و عارض کو سہلائے۔ اعراب کیلئے لغات کو حفظ کرنا ممکن نہیں تو اپنے لاشعور کو الفاظ کی آوازوں کے ردھم سے روشناس کرادینا چاہیئے اور اسکا ایک ہی طریقہ ہے کہ قرآن پاک کسی حافظِ قران سے تجوید سے پڑھنا سیکھا جائے۔ اور سالہا سال تک قران کی تلاوت کو روزانہ کا معمول بنائے رکھے۔ اس سے طبیعت میں وہ اعتدال بھی آئے گا جو ایک کلاکار تخلیق کار میں ہوتا ہے۔
بولنے میں تسلسل اور غیر ضروری تعطل و ٹھہراو موضوع پر ڈھیلی گرفت کا عکاس ہوتے ہیں۔ اسکے لیئے ایک منٹ سے پانچ منٹ تک کسی بھی موضوع پر تسلسل سے بولنے کی مشق ۔ موضوع نہیں بھی بن رہا تو بے معنی الفاظ و آوازوں کی مشق جیسے کہ مالا دی بو سا گی دا شولو ہاپی ساتو گیما نی دو بارا کو ہا نی زا پےناقی۔۔پھر کسی موضوع پر تیس سیکنڈز سے تیس منٹ تک بولنے کی مشق کی جائے۔۔
جس بولی کا لفظ ہے اسے اُسی لہجے میں بولا جائے۔ یہ نہیں کہ انگلش پنجابی میں پنجابی سرائیکی میں اور اردو پنجابی میں۔نگاہ کو مخاطب کی آنکھوں میں یا کیمرے کے لینز میں پیوست کرکے بولنا سیکھا جائے۔ پلکیں ۔غیر ضروری جھپکنے ۔ نظریں ادھر ادھر گھمانے پلکوں کو تیز تیز جھپکنے سے گریز کیونکہ یہ تمام حرکات اضافی غیر ضروری اور خود اعتمادی کے فقدان کو ظاہر کرتی ہیں۔اسکی مشق یہ ہے کہ آئینے میں خود سے نگاہیں چار کر کے دیر تک با مقصد باتیں کریں۔
ذہانت حاضر جوابی دماغی تندرستی بہت ضروری ہے۔ عموماً ہم ایسی سوچوں کے جال میں پھنسے رہتے ہی۔ جو ہمیں کُند ذہن اور ہماری یادداشت چھیننے کا سبب بنتے ہیں۔ اس سے جسمانی و اعصابی تھکاوٹ کے علاوہ چہرے کی تازگی ماند پڑتی ہے۔ اسکی مشق ایک تحفہ سمجھ لیں۔ جو آپکی زندگی اور شخصیت کو نکھارنے میں مددگار ثابت ہوگی۔ ہم ذہین نہیں کیونکہ ہم نے دماغ کو ماضی کے بکھیڑوں اور مستقبل کے خدشات میں الجھا رکھا۔ ان دونوں سے چھُٹکارا پانا ہے۔ اور صرف حال تک محدود رہنا ہے۔ یعنی صاحب حال ہونا ہے۔ اسکی مشق یہ ہے کہ دماغ کو اپنی آنکھ سے چِپکا لینا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ نگاہ جو دیکھ رہی دماغ بس اسی کو سمجھ رہا ہو۔ یہ لقمہ ہے یہ سالن ہے یہ مٹر یہ آلو یہ گوشت اور یہ میں کھا رہا ہوں۔ یہ کلاک ہے اسکی سوئی اب اس ہندسے تک پہنچی۔ یہ میں سیڑھیاں چڑھ رہا/رہی ہوں اور یہ پچاسویں سیڑھی ہے۔ بس اس سے زیادہ نہیں سوچنا۔ ادھر ادھر کا ماضی یا مستقبل کا وسوسہ خیال آئے بھی اس سے گریز کریں اور دماغ کو نگاہ کا تعاقب کرنے میں لگائے رکھیں ایسا روزانہ تب تب کریں۔جب جب آپ سو نہیں رہے۔ اس سے آپکی نیند کم ہوجائے گی دماغ کے تمام سوئے پردے جاگ اٹھیں گے۔ چہرے پر تازگی بکھرنا شروع ہوگی۔ چہرے کی کالیوں پر لالیاں آنا شروع ہوجائے گی۔ کیل مہاسے چھائیں حلقے سب ختم۔ اور جب پرامپٹر پڑھیں گے تو اوسی کے بعد بیپر کے وقت سوال کرتے وقت “کیا تفصیلات ہیں” جیسی نالائقی سے بچ جائیں گے۔
غوروفکر کریں۔ بال کی کھال اتارنا سیکھیں۔ بات کی تہہ تک پہنچنا شروع کریں۔ کیا ہوا کیوں ہوا کیسے کہاں کب ہوا۔۔۔تحقیق تحقیق تحقیق۔۔۔ رویے برداشت نہیں ہوتے لوگ ستاتے ہیں ظلم کرتے ہیں۔ آگے نہیں بڑھنے دیتے۔ غیبت گالم گلوچ سیاست فراڈ کرتے ہیں۔ ایسے میں آگے کیسے بڑھا جائے۔ رخسار اس لیئے عطا ہوئے کہ آپ مسکرا سکیں۔ چہرے پر ہر وقت ہرحال میں مسکراہٹ مخالفین کے لشکروں کے تمام تیر ختم کردیتی ہے۔ بس اسے چہرے سے نہ ہٹنے دیں۔ لوگ تھک جائیں گے۔ آپ کو زیر نہیں کرپائیں گے۔
جسے اللہ عزت دے اسے بندہ عزت دے۔ سینئر کا احترام لازم اس سے بڑا بننے کی کوشش مزید چھوٹا کردیتی ہے۔ اس سے نہ الجھیں۔ حالات موافق نہیں تو خاموشی۔ حالات قابو۔میں تو اپنی کارکردگی بہترین انداز میں دکھانے کا موقع ہے۔
When you are in shit, keep your mouth shut.
فارغ اوقات میں نیوز روم میں بیٹھ کر پڑھتے رہیں۔ نیوز روم کی چہل پہل آوازیں علم کو بڑھاتی ہیں۔ موضوعات سے متعلقہ جوابات انہی آوازوں میں ہیں۔ سینئرز کو قائل کریں کہ آپ میں سیکھنے کی لگن ہے۔ بلٹین میں غلطیوں پر انہیں اچھے انداز میں آگاہ کریں۔ رہنمائی لینے کا روپ اپنائیں۔ ایشوز پر رائے لیں رائے دیں۔
خود کو چیلنجز دیں۔ روز ایک موضوع پر مضمون لکھیں جس میں تمام زاویوں کو زیر بحث لائیں۔ اور اپنا ایک نتیجہ جو قابل فہم اور مدلل ہو اخذ کریں محاورات کا استعمال کریں
آن ایئر جانے سے پہلے بلٹین لازمی پڑھیں۔ دوخبروں میں transitional lines بنائیں۔ chunk تبدیل ہوتو bridge up کریں۔
سینئرز کا کام دیکھیں انکی بہترین کارکردگی سے موتی چنیں۔۔خبر، اپنے پروگرام کا ابتدائیہ جو خود نہیں لکھ سکتا وہ اینکر نہیں مانتا میں۔ لکھنا سیکھیں کاپی ایڈیٹر بھی ہوں آپ۔۔۔علم اوزان عروض لفظ کی حرمت و تقدس کا پہناوا ہیں۔ ان علوم کو سیکھیں۔ طبیعت کو اعتدال میں لانے کیلئے راگ الاپیں۔ بہروں میں لفظ پرونا سیکھیں۔ نثر میں حکایات کے طرز کو اپنائیں۔ اپنے موقف کو دلیل کے ایسے معیار پر لے جائیں کہ دس سال بعد بھی یوٹرن کی ضرورت پیش نہ آئے۔ ہاں کوئی آپ کی رائے سے زیادہ شاندار نقطہ بتا دے تو اپنی تھیوری اور مائنڈ سیٹ کو بہتر دلیل کیساتھ بدل دیں۔آپکی شخصیت کا سب سے جاندار پہلو آپکا وسیع مطالعہ اور اخلاقی طور پر دوسروں کیلئے بہترین معاون و مددگار ہونا ہے۔ الجھنے والوں سے گریز کریں۔ انہیں معاف کرتے چلے جائیں سو بار ہزار بار لاکھ بار۔ اس ادارے کو آپکی ضرورت نہیں آپ کو ادارے کی ضرورت بن کردکھانا ہے۔ اپنی کارکردگی اور بہترین سلوک سے۔۔
Decorum, SOP, کو کسی لمحے نظر انداز نہ کریں۔ پیشہ ورانہ اصولوں کے پابند لوگ مثالی ہوتے ہیں بڑے ہوتے ہیں ادارے کی اولین ترجیح ہوتے ہیں۔
کوئی شخص اگر ایکٹر، خطیب، دانشور، صاحب الرائے، رول ماڈل، شاعر، ادیب، لکھتکار، خوش الحان، خوش گفتار الغرض ایسی تمام خوبیوں کا مالک ہو تو اینکر ہوتا ہے فیس آف دی چینل اور کچھ کمی ہے تو اسے پورا کرے۔ ان تمام خطوط پر محنت کرے۔ وگرنہ کوئی اور کام کرلے۔ یا پھر مجھ سے ملاقات کرے۔(شکیل بازغ )