تحریر : مبشر علی زیدی
میرا خیال ہے کہ میں پاکستان کے پرائیویٹ ٹیلی وژن دور کا سب سے زیادہ بلیٹنز کرنے والا پروڈیوسر ہوں۔ میرے سامنے کئی جونئیر آئے اور سینئر ہوگئے۔ کئی نے بلیٹن چھوڑ کر کوئی ڈھنگ کا کام پکڑ لیا۔ بہت سے دوسرے چینلوں میں جاکر ترقی کرگئے۔ میں کچھوا بن کر نیوزروم میں رینگتا رہا۔ عمر قید کے مجرم کو چودہ سال سزا ہوتی ہے۔ میں نے چودہ سال ہنسی خوشی بلیٹنز کیے ہیں۔
ان برسوں میں کم و بیش پچاس اینکرز سے خبریں پڑھوائی ہیں۔ کبھی کوئی اینکر ملے تو میرا نام لے کر دیکھیں۔ منہ سے کچھ بھی کہے، اس کی آنکھیں بتادیں گی کہ ہمارا کیسا پیار کا رشتہ رہا ہے۔ وہ جو دوستی اور محبت کی باتیں ہیں، کسی اور دن سنائیں گے۔ آج وائرل ہونے والی ایک وڈیو دیکھ کر لاہور کی ایک اینکر یاد آگئیں۔محمد جنید، شہزاد حسن، ثمینہ پاشا، ماریا میمن، ان سب کا تعلق لاہور سے ہے لیکن ان کے لہجے اور تلفظ پر یوپی والوں کو رشک آتا ہے۔ لیکن سب لوگ ایسے ہیرے نہیں ہوتے۔
میں جس زمانے کی بات کررہا ہوں، جیونیوز کو آئے دو سال ہوئے تھے۔ دبئی سے نشریات ہوتی تھیں۔ بلیٹن ریکارڈ کیے جاتے تھے اور کمپیوٹر سرور سے ایک سافٹ وئیر کے ذریعے چلائے جاتے تھے۔دبئی کا اسٹوڈیو چھوٹا سا تھا۔ ایک شفٹ میں ایک اینکر خبریں پڑھتا تھا۔ نئے اینکر کو رات میں رکھا جاتا تھا۔ ان دنوں رات بارہ بجے کے بعد کوئی نئی خبر آن ائیر نہیں جاتی تھی۔ رات کے اینکر کا پہلا بلیٹن صبح چھ بجے نشر کیا جاتا تھا۔ہماری ممدوحہ اینکر درحقیقت اینکر نہیں تھیں، وہ ایک رپورٹر تھیں۔ یہ کوئی مسئلے والی بات نہیں۔ ندا فاطمہ، عاصمہ شیرازی، منصور علی خان، اجمل جامی، یہ سب پہلے رپورٹر ہی تھے۔ ممدوحہ خاتون کو ضد تھی کہ وہ بھی اینکر بنیں گی۔
ان کی پہلی شفٹ تھی اور اتفاق سے میں پینل پروڈیوسر تھا۔ بلیٹن ریکارڈ کروانا میری ذمے داری تھی۔ میں نے خاتون سے کہا، خبر پڑھیے۔ انھوں نے پانچ سطر کی خبر میں دس فمبل اور تلفظ کی پندرہ فاش غلطیاں کیں۔ میرے ہوش اڑ گئے۔ دوسرے اینکر ون گو میں خبر ریکارڈ کرواتے تھے۔ کبھی کبھی ایک دو فمبل ہوجاتے تھے۔ کسی نام کا تلفظ غلط ہوتا تو میں تصحیح کردیتا تھا۔ لیکن عام الفاظ کا تلفظ بار بار بتانا اور فمبل پر فمبل دیکھنا تکلیف دہ تجربہ تھا۔
چالیس منٹ کا وہ بلیٹن جو ہم پینتالیس منٹ میں ریکارڈ کرلیتے تھے، اس رات تین گھنٹے میں مکمل ہوا۔ صبح چھ اور پھر آٹھ بجے خبرنامہ دیکھنے والوں کو احساس ہی نہیں ہوا کہ کوئی انہونی بات ہے۔دوسرا دن، تیسرا دن، چوتھا دن، چار راتوں تک یہی معمول رہا۔ میں تلفظ کی غلطیاں پکڑتا اور پینل پر بیٹھا ویڈیو ایڈیٹر فمبل نکالتا۔ صبح بے عیب بلیٹن آن ائیر ہوتا۔
پانچویں دن میرا آف تھا۔ اسلام آباد کے ایک پروڈیوسر صاحب کی ڈیوٹی تھی۔ خاتون کا تو صرف تلفظ خراب تھا، ان کی گریمر بھی ٹھیک نہیں تھی۔میں چھٹی کی رات لمبی تان کر سویا۔ صبح اٹھ کر ٹی وی کھولا تو اسکرین سے خاتون کو غائب پایا۔ اگلی شفٹ کا اینکر بغیر منہ دھوئے خبریں پڑھ رہا تھا۔ صاف لگ رہا تھا کہ بے چارے کو ہنگامی طور پر بلاکر اسٹوڈیو میں بٹھایا گیا ہے۔
میں نے دفتر فون کرکے پوچھا، کیا واقعہ ہوا؟ جواب ملا کہ کراچی میں باسز نے صبح سویرے نئی فرہنگ تلفظ پر مبنی بلیٹن دیکھ لیا۔ اس کے بعد ہنگامہ مچ گیا۔ فوری طور پر اینکر پروڈیوسر کی نئی جوڑی طلب کی گئی۔ پرانی جوڑی حیران بیٹھی ہے کہ ہمارا بلیٹن تو ہمیشہ کی طرح بالکل ٹھیک تھا، باس کیوں پریشان ہیں۔وہ ممدوحہ کا آخری بلیٹن ثابت ہوا۔ اس کے بعد وہ وطن واپس روانہ ہوگئیں اور کچھ عرصے بعد جیونیوز بھی چھوڑ گئیں۔۔
(یہ تحریر سولفظوں کی کہانیوں کے خالق مبشرزیدی صاحب کی فیس بک وال سے اڑائی گئی ہے، تحریر چونکہ میڈیا سے متعلق تھی اس لئے ہم نے اپنی ویب کے چاہنے والوں کے لئے اسے لگارہے ہیں۔۔علی عمران جونیئر)