تحریر: طارق حبیب
مکسم گورکی کی کتاب ”ماں“ مرای پسندیدہ کتب مںک سے ہے ۔ مںا نے اس کتاب کی پسندیدگی کی وجہ پوچھی تو جواب ملا کہ جس طرح مکسما گورکی نے ماں کی عظمت باتن کی اس طرح کوئی اور مصنف نہںپ کرسکااور مں یہ جواب سن کر دنگ رہ گاا۔یہ لڑکی ان امدسواروں مںد سے ایک تھی جن کا دنام الکشنب سلا کی ٹم تانر کرنے کے دوران مجھے انٹرویو لنےت کا اتفاق ہوا۔ تن۔ سو سے زائد انٹرویوز مں کتب بیا ، پسندیدہ کتاب و مصنف اور صحافت مںا کورں آنا چاہتے ہںی، جسےر چند بناںدی نوعتھ کے سوالات ہر امدنوار سے پوچھے۔اعلیٰ و مہنگے ترین تعلیمں اداروں سے آئے ان امدتواروں کے جوابات نے مجھے پریشان کردیا۔ ان امدکواران کی اکثریت کتب بیعت کو وقت کا ضا ع سمجھتی تھی اور گوگل کو کتاب سے ہزار گنا بہتر بتارہی تھی۔ انھںے امدبواران سے مجھے پتا چلا کہ ابن صفی سی آئی اے کے کہنے پر جاسوسی ناول لکھتا تھا اور منٹو نے را سے پسےا لکرے مسلمان نوجوانوں کو بگاڑنے کلئےن ”بہوندہ کہاناےں“ لکھںی۔ اگر قارئنا مزید ”معلومات “ حاصل کرنے مںا دلچسپی رکھتے ہوں تو بتاتا چلوں کہ شہاب نامہ غالب نے لکھا تھا اور مختار مسعود ناکام گلوگار تھے اس لےا منظر عام پر نہںد آسکے۔اسی طرح گورنر اور وزیراعلیٰ مںص سے وزیر اعلیٰ اس لےا بڑا ہوتا ہے کہ اس کے عہدے مںت ”اعلیٰ“ آتا ہے۔القاعدہ کی قاںدت ملا عمر کے پاس تھی اور تحریک طالبان پاکستان پرویز مشرف نے اپنے دور حکومت کو طول دینے کلئے بنائی تھی۔بات یںعو پر ختم نہںا ہوتی ، کمپوتٹر سائنس، اپلائڈر کمسٹر ی، بائوامڈےیکل ٹکنا لوجی کے ساتھ ساتھ ایم بی بی ایس فائنل ائر کے طالبعلم بھی امدشواران مںا شامل تھے جو صحافی بننا چاہتے تھے ۔پھر یہ بھی کہ امدئواران کی اکثریت اخبارات کے مطالعے،نویز چنلز دیکھنے کی بھی زحمت نہںی کرتی مگر تمام امدلواران اینکر بننا چاہتے تھے۔مںھ نے مستقبل کے ان اینکرز سے جان بوجھ کر قائد اعظم اور علامہ اقبال کے حوالے سے سوالات نہںل کے کہ کہںل ایسا نہ ہو ان ہستوچں کے بارے مں بھی ایسے ”حقائق“ جاننے کو ملے جو اب تک تاریخ دانوں کی” کم علمی“ کے باعث منظرعام پر نہ آسکے۔
نئی نسل مں یہ بگاڑ کوہں ہے، اسے سمجھنے کے لےب چند نکات پر توجہ دینا بہت ضروری ہے۔ہمارے ملک مںا سنکڑ وں تعلیسن ادارے ہںپ جو صحافی تا ر کررہے ہںی ۔ ایک اندازے کے مطابق ہردو سال مںگ ایک لاکھ کے قریب مد ان مںت آتے ہیںمگر ان کا معاھر کای ہوتا ہے اس کا اندازہ درج بالا پررے سے لگایا جاسکتا ہے۔ اساتذہ کا کردار سب سے اہم ہے۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ وہ اساتذہ کہاں ہں جو اپنے طلباءکی تعلما و تربتی اپنی اولاد کی طرح کرتے تھے۔ صرف دوران طالبعلمی ہی نہںس بلکہ تاحاھت طلباءکی اصلاح اپنا فرض سمجھتے تھے۔ مستقبل کے حوالے سے شعبے کے چناﺅ کا معاملہ ہو یا عملی زندگی مںک قدم رکھنے کے بعد آگے بڑھنے کے لےب مشاورت درکار ہو، ہر موقع پر طلباءکی رہنمائی ان اساتذہ کا اولنر فریضہ ہوتا تھا۔ شاگرد کی ناکامی کو اپنی ناکامی تصور کرتے تھے۔ آج استاد و شاگر کا یہ رشتہ ناپدک ہوچکا ہے۔ طلباءکو صرف کورس کی کتابوں کا رٹا لگوا کر امتحانوں مںہ کامادب کراکے اساتذہ یہ سمجھتے ہںی کہ ان کی ذمہ داری پوری ہوگئی ہے۔ پھر طلبہ کی جو کھپی تاتر ہوتی ہے انھںی دیکھ کر ناصرف ان طلبہ کی بلکہ ان کے اساتزہ کی قابلت کا بھی اندازہ کاہ جاسکتا ہے۔
تعلیسا نظام کے بگاڑ کی ایک اہم وجہ طلباءیوننہ پر پابندی بھی ہے۔ یوننہ کے دور مںو طلباءبڑھ چڑھ کر غرت نصابی سرگرمومں مںح حصہ لتے تھے ۔ طلباءتنظں کی نوجوانوں کو اپنی جانب راغب کرنے کے لےء علمی و تربیرا نوعت کے مختلف پروگرامات منعقد کرتی تھںذ۔ ملکی صورتحال اور سامسی نظام پر مباحثے کرائے جاتے تھے ۔ عالمی صورتحال اور ملکی مفاد کے حوالے سے مکالمے ہوتے تھے ۔ کسی بھی اہم ملکی ایشو پر مذاکرہ کراکے اس کے حل کے حوالے سے طلباءکی رائے جانی جاتی تھی ۔ ان سرگرمواں کے باعث تمام شعبہ جات کے طلباءاپنی نصابی سرگرمو ں کے ساتھ ساتھ عالمی اور ملکی حالات پر بھی گہری نظر رکھتے تھے ۔ مگر اب صورتحال یکسر تبدیل ہوچکی ہے۔طلباءیونن پر پابندی کے بعد تعلیکک اداروں مںی نوجوان غرر نصابی سرگرموپں سے دور ہوگئے ہںں ۔ عالمی و ملکی حالات سے واقفت تو درکنار اپنے شہر کے حالات کا ادراک نہں رکھتے بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ آج کے طلباءاپنے تعلیات ادارے مںی اپنے ساتھی طلباءکو درپشح مسائل سے بھی پوری طرح آگاہ نہں ہںھ۔ ادبی نشستں ناپدی ہوگئی ہں ، علمی محافل کا ذکر اب کہںا نہںے ملتا۔جاننے کی جستجو ختم ہوچکی ہے، نوجوان نسل مںس شہرت کی ہوس اور پسےہ کی بھوک بڑھا دی گئی ہے۔علم کا حصول اب ترجحائت مںا شامل ہی نہںے۔ اگر ایک جملے مںج ختم کرنا چاہںو تو کہ سکتے ہںہ کہ ادب بے توقرے اور ادیب بے وقعت ہوچکا ہے۔
تعلی ہ اداروں کی بات کریں تو ہمارے ملک مںا ایک عمومی رجحان رہا ہے ،ہر دور مںہ کوئی ایک کورس یا ڈگری متعارف کرائی جاتی ہے۔ جس کی اچانک مقبولتی بڑھ جاتی ہے اور پھر معا۔ری تعلی م ادارے ہوں یا گلی محلوں چوراہوں پر قائم تعلمر بچنے والے ڈھابے، معروف کورسز کرانے کے اعلانات شروع کردیتے تھے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور پہلے سے کہںہ زیادہ بڑھ چکا ہے۔ اسی طرح اکسومیں صدی کے ابتدائی سالوں مںع ملک مں الکٹرکانک مڈےیا متعارف ہوا ، گلمرواور مڈ یا چکاچوند کو دیکھ کر نوجوان نسل اس جانب متوجہ ہوئی ۔ نوجوانوں کی دلچسپی دیکھتے ہوئے تعلمت فروشوں نے صحافت کے مدےان مںئ نئی نئی ڈگریاں متعارف کرائںو اور پھر ہر دوسرا ادارہ ”بہترین کوالٹی کے صحافی“ تادر کرتا نظر آیا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کمپوتٹر کے شارٹ کورسز کی طرح اب صحافت کے بھی شارٹ کورسز شروع ہوچکے ہںر۔ اکسک دن مںا رپورٹر اور ایک ماہ مں اینکر بنانے کے دعوے اب اکثر ”تعلی ا ڈھابوں“ کے ماتھے پر درج نظر آتے ہںم۔
یہ صورتحال انتہائی گھمبرں ہے جو آہستہ آہستہ ایک المے کو جنم دینے کی جانب جارہی ہے۔ صحافی جنھںی عوام کو شعور دینے کا فریضہ سونپا گاا ہے جب وہ خود شعور سے عاری ہونگے تو اپنا فرض کسےئ ادا کرینگے۔اگر ارباب اختاکر اس صورتحال پر قابو پانا چاہتے ہں تو انھںف چاہئے کہ سب سے پہلے یہ شارٹ کورسز کرانے والے ڈھابے نما اکڈنمونں پر گرفت کریں اور انھں بند کردیں۔ معروف تعلیا اداروں مںو پڑھائے جانے والے سلیبس کا جائزہ لکرہ ضرورت کے مطابق تبدیا اں کریں۔ شعبہ صحافت مں آنے والوں کی عملی تربتم کے ساتھ ساتھ ادبی تربت بھی بہت ضروری ہے ۔ کتب بیثک کو عادت بنانے کلئےت بہترین ادبی کتب طلباءکے نصاب مں شامل کی جانی چاہئے۔ قومی وبنھ الاقوامی مڈییا پر زیر بحث آنے والے ایشوز پرکلاس روم مں روزانہ بات چتئ ہونی چاہئے۔مختلف ممالک مں رائج نظام پر بحث، ان کی کاما بی و ناکامی پر مکالمے بھی کلاس روم کی روزانہ کی سرگرمی ہونی چاہئے۔ دناا مںے ہونے والی اہم تبدیوب ں کی مڈمیا کوریج پر اسائنمنٹس کروائے جانے چاہئے۔ عالمی طاقتںن بن الاقوامی مڈےیا کو اپنے پروپگنڈرہ ٹول کے طور پر کسےا استعمال کرتی ہںہ اور کسےع مڈظیا کوریج کے دوران اپنے ملکی مفادات کا تحفظ کرنا چاہئے۔ ان سب نکات پر زمانہ طالبعلمی مںو کام کروایا جانا چاہئے جبکہ ملکی سطح پر کام کرنے والے محکموں، ان مںف ہونے والی تبدیاانں، تعنا تا ں اور ان کا طریقہ کار، محکموں کے سربراہان کے نام وغرتہ ان امدہواروں کی فنگر ٹپس پر ہونے چاہںو۔ پاکستان کی مڈایا انڈسٹری مںم چند ادارے ہںف جو اچھی ساکھ رکھتے ہںم ۔ اس شعبے مںم طلب کم جبکہ رسد زیادہ ہے اس لےی مقابلے کا رجحان بھی بڑھ گار ہے۔ بہترین ساکھ کے حامل اداروں مںڈ ملازمت حاصل کرنے کے لےد صحافت مں آنے کے خواہشمند نوجوان امد واروں کو مطالعہ، تحققس اور سخت حالات مںح محنت جسےر ہتھامروں سے خود کو لسص کرنا ہوگا۔پھر وہ یید طور پر کاماںب صحافی بن سکتے ہںڈ اور ان کا اینکر بننے کا خواب بھی شرمندہ تعبر ہوسکتا ہے۔(بشکریہ دنیا)