تحریر: فرحان رضا۔۔
عامر لیاقت کی ویڈیو نشان عبرت ہے۔ وہ جب بول میں گئے اور پروگرام ایسے نہیں چلے گا کرنا شروع کیا اس وقت ان کے زوال کی گھڑی شروع ہوئی کیونکہ وہ لوگوں کی عزت کے ہنس ہنس کر پرخچے اڑا رہے تھے ہر ایک پر ایجینسیوں کے کہنے پر جھوٹے اور گھٹیا الزامات لگا رہے تھے۔۔ سب کو پتہ ہے کہ ان کا کنٹینٹ کہاں سے آرہا تھا۔۔ وہ لوگوں کی عزتیں اچھالتے گئے ۔۔ قران و سنت سے واقف شخص یہ بھول گیا کہ مکافات عمل ہوتا ہے اور وہ ہوا۔۔ آج عامر لیاقت مکافات عمل ہی بھگت رہے ہیں ۔۔ وہی ایجینسیاں جنہوں نے ہر شخص کی عزت سرعام اتاری جس کسی نے اختلاف رائے کیا اور وہ بھی ملک کی محبت اور مفاد میں اختلاف رائے کیا اس کو ٹارچر بھی کیا اور بے عزت بھی بیروزگار بھی ۔۔ آج وہی ایجینسیاں اپنی عزتیں بچاتی پھر رہی ہیں کبھی ایف آئی اے کے ذریعہ دھمکیاں دیکر اپنی عزت بحال کرانا چاہ رہے ہیں تو کبھی آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز سے۔۔ لیکن لٹی ہوئی عزت واپس نہیں آرہی۔۔یہی ہے مکافات عمل ہے۔
شرفا کو سرعام ذلیل و رسوا کرنے کا عمل جنرل ایوب کے دور سے شروع ہوا جب مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو انگریز کے بوٹ پالش کرکے آنے والے جنرل ایوب اور اس کے ساتھ کے جرنلز نے انہیں “کتیا” بھارتی ایجنٹ اور غدار کہا۔۔ اسوقت بھی مکافات عمل کا نتیجہ تھا آخر کار گلی گلی میں ایوب کتا، کرنل جرنل بے غیرت کے نعرے جواب میں لگے اور برطانوی فوج سے پاکستانی فوج میں آنے والے جنرل ایوب کو روتے ہوئے اقتدار چھوڑنا پڑا۔۔
پھر جنرل ضیا نے سیاستدانوں کو ذلیل و رسوا کرنے کی ٹھانی تھی۔۔ نصرت بھٹو بے نظیر بھٹو کی کردار کشی کی گئی، بیگم ولی خان کے ساتھ ایئرپورٹ پر گھٹیا حرکت کی گئی۔ کئی خواتین سیاستدانوں پر رکیک زبانی حملے کیئے گئے۔۔ پھر کیا ہوا؟ انیس سو چھیاسی میں کے پی کے سے کراچی تک جنرل ضیا کتا، کرنل جرنل بے غیرت کے نعرے سڑکوں پر لگ رہے تھے ۔۔ لہک لہک کر یہ نعرے لگائے جارہے تھے۔۔
پھر مشرف دور میں سیاستدانوں اور مخالفین کی سینہ ٹھوک کر عزت اتاری گئی۔ بڑے فخر سے بتایا جاتا تھا کہ رانا ثنااللہ کے ساتھ کیا کیا گیا اور پرویز رشید کے ساتھ کیا ہوا۔۔ پھر کیا ہوا۔۔ مشرف کتا کرنل جنرل بے غیرت کے نعرے سڑکوں پر لگے۔۔آج مشرف بے بسی کی تصویر دبئی کے ایک اسپتال میں زیرعلاج ہے۔پھر جنرل راحیل شریف کے دور میں سیاستدانوں سول سوسائٹی کی کردارکشی شروع ہوئی جو لوگ ملک کی محبت میں غلط کو غلط کہہ رہے تھے ان پر غداری کے فتوے لگے اغوا ہوئے ملک بدر ہوئے۔جنرل باجوہ اور جنرل فیض کی ٹیم اس کو انتہا پر لے گئی۔۔پھر مکافات عمل کا پہیہ گھوما۔۔ وہ جنرل عاصم باجوہ جن کے اشارے پر میڈیا کو واہ واہ یا نا نا کرنا ہوتا تھا وہ جنرل پیزا اور پاپا جونز کے نام سے مشہور ہوئے۔ اور اب جنرل قمر باجوہ اور جنرل فیض سمیت پورے ادارے کی عزت سوشل میڈیا جو ایک سڑک ہے اس پر اچھالی جارہی وہ سب دیکھ ہی رہے ہیں۔ ہزار کوشش کے بعد بھی صورتحال نہیں سنبھل رہی
اس میں بیگناہ پس رہے ہیں۔۔بیگناہ کون وہ لوگ جو وطن کی محبت میں آواز اٹھارہے تھے اور ذلیل و رسوا کیئے گئے۔۔بیگناہ وہ لوگ جو وطن کی محبت میں فوج کی وردی پہن کر سرحد پر کھڑے تھے اور کھڑے ہیں دہشتگردوں سے نبرد آزما ہیں ۔۔ہزاروں اپنی جانوں کا نذرانہ دے چکے ہیں۔۔ان بیگناہوں کا حساب بھی اللہ فوج کے ذمہ داران سے چکتا کرے گا۔۔لیکن کیا ہم کوئی سبق حاصل کرسکے؟ کیا ہم سیکھ سکے کہ اگر کسی کی بے عزتی کرو گے بے توقیری کروگے تو کل تم کو اسی معاشرے میں اسی گلی چوراہے میں بے عزت ہونا ہے۔۔یہ سیاستدان بھی اسی لیئے بے عزت ہوئے ۔انہوں نے جو مخالف کے لیئے کیا اس سے بدتر انجام بھگتا۔۔
سنتے آئے ہیں کہ قیامت سے قریب وقت میں مکافات عمل تیز ہوگا ۔۔ شاید یہ ہی وہ وقت ہے۔۔(فرحان رضا)۔۔