تحریر: فیصل حسین۔۔
بہت سے لوگ اکثر کہا کرتے تھے عامر لیاقت کا خاکہ لکھیں، شاید ان کے بارے میں آپ سے زیادہ کوئی نہ جانتا ہو۔ مگر سچ بات یہ کہ کبھی ہمت نہ ہوئی۔ اس کی وجہ بھی یہی کہ ان کے بارے میں شاید سب کچھ نہ سہی مگر بہت کچھ جانتا تھا اور وہ لکھنا شاید آسان نہ ہو۔ جمعرات کی دوپہر ان کی موت کی اطلاع ملی تو ان سے 29 سالہ تعلق اور اس دوران آنے والے واقعات ایک مختصر فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے سے گزرنے لگے۔
عامر لیاقت حسین اپنے طالب علمی کے دور سے ہی بحیثیت مقرر مشہور ہوگئے تھے۔ انھوں نے اپنی صحافت کا باضابطہ آغاز 1993 میں کراچی سے شائع ہونے والے شام کے اخبار ’’پرچم‘‘ میں بحیثیت ٹرانسلیٹر (مترجم) کیا۔ اگرچہ یہ ایم کیو ایم کا باضابطہ ترجمان اخبار نہ تھا مگر وجہ شہرت ایم کیو ایم کی حمایت کرنا تھی۔ اس وقت پرچم اخبار کے مالک ایچ اقبال اور زاہد قریشی تھے۔ اس اخبار کے اتنے قصے ہیں کہ کئی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں مگر آج موضوع عامر لیاقت ہیں۔پہلے جاں، پھر جانِ جاں پھر جانِ جاناں ہوگئے‘ کے مصداق عامر لیاقت پرچم اخبار میں ٹرانسلیٹر سے سٹی ایڈیٹر، پھر نیوز ایڈیٹر اور پھر ایڈیٹر اور بعد ازاں اسی اخبار کے مالک ہوگئے۔ اس اخبار کے پرانے مالکان آج بھی حسرت سے کہتے ہیں ہم نے پرچم اخبار نکالا تھا۔ عامر لیاقت نے مالک ہونے کے کچھ عرصے بعد پرچم اخبار، امن اخبار کے مالک اجمل دہلوی کے حوالے کیا اور خود ایک اخبار میں نوکری شروع کردی۔
عام طور پر لوگ عامر لیاقت کی زندگی کے منفی اور متنازعہ پہلو پر بات کرتے ہیں اور ان ہی پہلوؤں میں اپنے لیے تفریح کا سامان تلاش کرتے ہیں۔ اس میں کچھ حقیقت بھی ہے مگر سب کچھ ایسا نہیں ہے۔ عامر لیاقت غیر معمولی تخلیقی صلاحیتوں، حیرت انگیز طور پر بہترین حافظے اور وسیع المطالعہ شخصیت کے مالک تھے۔ قوت فیصلہ ایسی کہ انسان حیران رہ جائے، مقرر ایسا کہ پانی میں آگ لگادے، اعتماد ایسا کہ بڑی بڑی شخصیات اس کے سامنے احساس محرومی میں مبتلا ہوجائیں، آواز میں ایسی گونج کے لاؤڈ اسپیکر کے بغیر ہزاروں کے مجمعے سے خطاب کردے۔ عامر لیاقت نے ترقی، خوشحالی، شہرت، عزت اور دنیاوی آسودگی کا سفر کسی برق رفتار لفٹ سے طے کیا۔ مگر یہ لکھتے ہوئے بہت افسوس ہوتا ہے کہ اسی لفٹ سے وہ اسی تیز رفتاری کے ساتھ نیچے بھی اترا۔ وہ شاید دنیا کے ان چند خوش نصیب لوگوں میں تھا جو اپنے خوابوں سے بھی آگے گیا مگر بعد میں اپنے خوابوں کو اپنے ہاتھوں سے روند ڈالا۔
محنت اور اپنے کام سے محبت اتنی کہ جب ان کی پہلی شادی بشریٰ اقبال کے ساتھ ہوئی ہوئی تو رخصتی ہوتے ہوتے رات کے دو بج گئے تھے۔ اس وقت وہ پرچم کے ایڈیٹر کے عہدے تک پہنچ چکے تھے۔ اس زمانے میں شام کے اخبارات کا کام صبح سویرے چھ بجے شروع ہوتا تھا۔ ان کی غیر موجودگی میں ڈیسک کی ذمے داری میں سنبھالتا تھا۔ میں نے رخصتی سے کچھ دیر قبل پوچھا کہ کتنے دن کی چھٹی کریں گے؟ کہنے لگے تم آفس پہنچو کچھ دیر میں آرہا ہوں۔ وہ اپنی شادی کی پہلی سہاگ رات گزار کر صبح چھ بجے سے پہلے دفتر پہنچ چکے تھے اور دفتر پہنچ کر بولے بتاؤ کہ سہاگ رات کو دو گھنٹے بعد اپنے کام پر کوئی آسکتا ہے؟ ہم نے بہترین ماتحت ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے کہا ایسی مثال اس دنیا میں نہیں ہوگی۔ وہ نہ صرف دفتر آئے بلکہ پوری کاپی تیار کروائی اور پھر واپس گئے۔ شادی کے بعد ایک دن کی بھی چھٹی نہیں کی۔
وہ اپنی پہلی اہلیہ بشریٰ بھابھی سے محبت تو بہت کرتے تھے، بھابی شاید ان سے بھی زیادہ کرتی تھیں۔ بشریٰ بھابھی بہت اچھی اور نفیس خاتون ہیں مگر عامر لیاقت کو میں نے ان کی زندگی میں سب سے زیادہ مجبور اپنے غصے کے سامنے پایا۔ غصے پر ان کو قابو نہ تھا۔ ناک پر مکھی نہ بیٹھنے دیتے۔ معمولی بات پر ردعمل غیر معمولی کر بیٹھتے اور بعد میں پچھتاتے بھی۔ بشریٰ بھابی سے ان کی اکثر لڑائی ہوجاتی اور جو بہت زیادہ بڑھ جاتی۔ مفاہمت کےلیے اکثر وہ مجھے اور کرائم رپورٹر کامران وجاہت کو بھابھی کے گھر بھیجتے کہ کسی طرح مناؤ غلطی ہوگئی ہے۔ اللہ کا شکر ہے دونوں میں اختلافات کے بعد دوستی ہوجاتی مگر کچھ دن بعد پھر لڑائی۔ یہ معاملہ چلتا رہتا۔ کبھی کبھی تو لڑائی کا موضوع بھی دلچسپ ہوتا۔ بشریٰ بھابی کے ایک بہنوئی تھے، ان کو لوگ گھر میں پیار سے ببلو کہتے تھے۔ ایک دن عامر لیاقت نے کالم لکھ دیا کہ ہر گھر میں ایک ببلو پایا جاتا ہے۔ اس بات پر دونوں میاں بیوی میں لڑائی ہوگئی۔
روزنامہ پرچم میں ایک بار دہشت گردوں نے حملہ کردیا۔ اس حملے کے دوران دفتر میں دو افراد تھے، ایک جنرل منیجر صمدانی صاحب اور کلچرل رپورٹر مسعود صدیقی۔ دہشت گردوں نے ان دونوں کو دیوار سے لگاکر فائرنگ کی۔ صمدانی صاحب کے سینے پر گولی لگی اور وہ موقع پر جاں بحق ہوگئے۔ مسعود صدیقی پر فائر کیا گیا مگر گولی پھنس گئی، مسعود صدیقی سمجھے گولی لگ گئی وہ گرگئے اور دہشت گرد بھی یہ سمجھے، اس طرح معجزاتی طور پر مسعود صدیقی محفوظ رہے مگر کئی دن سکتے کی حالت میں رہے۔ اگلے دن پرچم اخبار میں خبر چھپی دہشت گردوں کا حملہ، عامر لیاقت قتل ہونے سے بچ گئے، صمدانی ہلاک۔ اس کے علاوہ اس واقعے کے حوالے سے کئی خبروں میں یہی تاثر دیا گیا کہ حملہ عامر لیاقت کےلیے کیا گیا تھا۔عامر لیاقت پرچم میں ضرور کام کرتے تھے مگر وہاں کام کرنے والے دیگر افراد کی طرح ان کا اس وقت تک ایم کیو ایم سے کوئی تعلق نہ تھا، تاہم اخبار کے مالک ایچ اقبال کا بانی متحدہ سے قریبی تعلق تھا۔ انھوں نے ایچ اقبال کی مدد سے اپنے والد شیخ لیاقت حسین کو ایم کیو ایم میں شامل کرایا اور بعدازاں قومی اسمبلی کا ٹکٹ بھی دلایا۔ یہاں سے ان کا ایم کیو ایم کا تعلق شروع ہوا مگر عامر لیاقت بعد میں ایچ اقبال کے خلاف ہوگئے تھے۔
عامر لیاقت نے پرچم اخبار میں پوسٹ مارٹم کے نام سے کالم اور خبروں پر عامری جادوگر کا تبصرہ کے عنوان سے سلسلہ شروع کیا، جو روزانہ شائع ہوتا۔ وہ خود روز شام میں یہ دونوں لکھتے اور خوب لکھتے۔ یہ دونوں سلسلے بہت تیزی کے ساتھ عوام میں مقبول ہوئے۔نوے کی دہائی میں پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں کراچی میں پولیس مقابلے اور دہشت گردی کے واقعات کا خوفناک سلسلہ جاری تھا۔ پرچم اخبار سمیت اس وقت کے شام کے اخبارات جن میں عوام، قومی اخبار، پبلک اور آغاز سمیت چھ اخبارات پر پابندی لگادی گئی۔ اس زمانے میں شام کے اخبارات مقبولیت کے اعتبار سے صبح کے اخبارات سے بھی آگے نکل گئے تھے۔ اگرچہ خوب سنسنی پھیلاتے مگر پھر بھی پولیس مقابلوں اور دہشت گردی کے واقعات پر عوام کا اعتبار ان ہی اخبارات کو پڑھ کر آتا، خاص طور پر اس حوالے سے پرچم اخبار بہت مشہور ہوگیا۔ جس دن پولیس مقابلہ ہوتا اس دن پرچم لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوتا۔ کبھی کبھی تو ایسا ہوتا کہ صبح پرنٹنگ مشین چلنا شروع ہوتی اور شام تک چلتی رہتی۔ جس سے پیپلزپارٹی کی حکومت بہت خائف تھی جس کے باعث حکومت نے شام کے اخبارات بند کرادیے اور پرچم کے دفتر پر چھاپہ مارا اور زاہد قریشی کو گرفتار کرلیا گیا۔ اس وقت تک ایچ اقبال پرچم سے لاتعلق ہوچکے تھے اور پرچم کے مالک تنہا زاہد قریشی تھے۔ شام کے اخبارات پر چند دن بعد پابندی ختم ہوگئی مگر عامر لیاقت لندن چلے گئے، جہاں سے ان کا ایم کیوایم کی لیڈر شپ سے قریبی تعلق قائم ہوا۔ کچھ عرصے بعد واپس آئے اور ایم کیوایم کی لیڈر شپ کی مدد سے پرچم اخبار کے مالک بن گئے۔
زاہد قریشی صاحب کا ایم کیو ایم سے تعلق تھا۔ وہ ایم کیوایم کے ٹکٹ پر ایم پی اے بھی منتخب ہوئے تھے اور انھوں نے ایم کیوایم کی لیڈرشپ کا فیصلہ نہ صرف تسلیم کیا بلکہ جب عامر لیاقت کی ملکیت میں اخبار کی پہلی کاپی شائع ہوئی تو وہ مٹھائی بھی لے کر آئے مگر عامر لیاقت یہ اخبار نہ چلا سکے اور امن کے مالک اجمل دہلوی کے حوالے کردیا۔ یہ 1999 کی بات ہے وہ پرچم بند کرکے جرأت اخبار میں چلے گئے اور میں نے ایکسپریس گروپ جوائن کرلیا۔ کچھ دنوں کے بعد جرأت کے ایک فوٹوگرافر نے ان کو میرا نام لے کر بول دیا کہ فیصل حسین کہہ رہا تھا عامر لیاقت پاگل ہوگیا ہے۔ میں نے ایسی بات نہیں کہی تھی مگر نہ جانے فوٹوگرافر نے ایسا کیوں کہا۔ عامر لیاقت کا فون آیا کہنے لگے تم بڑے آدمی ہوگئے ہو، تمہاری نظر میں اب میں پاگل ہوں، ہاں پاگل ہوں۔ میں نے بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ میں نے ایسا نہیں کہا مگر انھوں نے نہیں ماننا تھا، وہ نہیں مانے اور ناراض ہوگئے۔ اس کے بعد کئی سال تک ان سے کوئی رابطہ نہیں رہا۔ مگر جب وہ ایم این اے بنے تو اس کے بعد اکثر ٹیلی فون پر بات ہوجاتی مگر ملاقات نہ ہوئی۔ ایک سال قبل انھوں نے ایکسپریس نیوز دوبارہ جوائن کیا تو ان سے ملاقات ہوتی رہی۔ وہ ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹ میں بھی اکثر ساتھ ہوتے۔ کہتے میں نے تم کو بولنا سکھایا ہے، تم بہت اچھا بولتے ہو، میں اور تم مل کر کوئی پولیٹیکل شو کریں گے۔ اگرچہ میں نے ان سے سیکھا تو بہت کچھ مگر بولنا نہیں سیکھا تھا مگر میں بالکل یہی کہتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب آپ کی محبت اور تربیت ہے۔ مگر وہ پروگرام شروع ہونا تھا، نہ ہوا۔ وقت گزر گیا وہ ایکسپریس سے چلے گئے۔ تیسری شادی کے بعد ان سے کوئی رابطہ نہیں ہوا مگر ان کے بارے میں جو باتیں سامنے آتیں، پرانے تعلق کی بنا پر افسوس ضرور ہوتا۔
آج موت کی خبر سن کر دل بوجھل ہے۔ کچھ باتیں یاد آئیں وہ لکھ دیں۔ کوشش کروں گا اگر کچھ اور یاد آیا تو مزید لکھوں۔عامر لیاقت ایک انتہائی مضبوط اعصاب کا مالک تھا مگر سوشل میڈیا کا مقابلہ نہ کرسکا۔ عامر لیاقت کا قاتل سوشل میڈیا ہے۔ سوشل میڈیا اتنا بے لگام ہوچکا ہے کہ وہ آپ کے بیڈروم میں داخل ہوگیا ہے اور وہ آپ کے کپڑوں کے اندر جھانک رہا ہے۔ اگر آپ برہنہ ہیں تو ستر ڈھکنے کے بجائے آپ کا تمسخر اڑا رہا ہے۔ اگر اس سوشل میڈیا کو لگام نہ دی گئی تو یہ کسی کی عزت کو نہیں بخشے گا، کیونکہ کپڑوں کے اندر تو ہر انسان برہنہ ہوتا ہے۔ (بشکریہ ایکسپریس)۔۔