تحریر: رؤف کلاسرا۔۔
پوری قوم امریکن صدر جو بائیڈن کے نیوکلیئر والے بیان پر شدید ناراض ہے۔ بائیڈن کی سوشل میڈیا پر شدید مذمت کی جارہی ہے۔جتنا لکھا جارہا ہے اگر وہ سب کچھ بائیڈن تک پہنچ جائے یا وہ پڑھ لے تو شام تک یقینا معافی مانگ لے گا۔
امریکیوں نے نیوکلیئر پر بات پہلی دفعہ کی ہے نہ آخری دفعہ۔ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی فارن پالیسی کو’ عزت‘ اور’ بے عزتی‘ کے ساتھ اٹیچ کر رکھا ہے کیونکہ ہمارے لیڈروں نے یہی سبق اپنی قوم کو پڑھایا ہے اور آپ جانتے ہیں اس قوم کو چونا لگانا کتنا آسان کام ہے۔ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کے نزدیک دنیا صرف غیرت پر چلتی ہے چاہے خود پاکستان کے اندر اپنی غیرت بھول کرطاقتور حلقوں سے اقتدار کی بھیک مانگ رہے ہوں‘ انہیں اس وقت یہ غیرت یاد نہیں آتی لیکن عالمی سطح پر غیرت سے کام لینا چاہتے ہیں۔ہمارے لیڈروں نے یہ بھی پوری قوم کو سمجھا دیا ہے کہ دنیا کی غیرت مند قوم ہمارے مغرب میں رہتی ہے جو خود کو برباد کرتی ہے یا دوسرے کو‘درمیانی راستہ کوئی نہیں۔
آپ کبھی عمران خان کو سنیں تو وہ بھی غیرت کی مثالیں ہمارے مغربی ہمسایوں میں تلاش کریں گے۔ ان بے چارے افغانوں پر جو ظلم سب نے مل کر کیا ہے وہ اپنے جگہ ٹریجڈی ہے۔ وہ برباد ہوئے‘ تباہ ہوئے‘ گھر چھوٹ گئے‘ دربدر ہو کر دوسرے ملکوں میں جا کر پناہ گزیں ہوئے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں کہ آپ اپنا گھر اور وطن چھوڑ کر دوسروں کی زمین پر اجنبی بن کر رہیں۔ ان کی نسلیں ماری گئیں لیکن ہم انہیں غیرت مند اور بہادر قرار دے کر دنیا کی ہر سپر پاور سے لڑاتے رہے۔ اگر درمیان میں کچھ عرصہ سپر پاورز افغانستان سے نکلیں تو افغان آپس میں لڑتے رہے‘ جب تک کہ امریکہ نے ان پر قبضہ نہ کر لیا۔ہم کبھی نہ سمجھ سکے کہ دنیا غیرت‘ بے غیرتی سے زیادہ مفادات پر چلتی ہے‘یہی دیکھ لیں کہ 1971ء کی جنگ میں امریکن عالمی مفادات کا تقاضاتھا کہ وہ بھارت جیسے بڑے ملک کے خلاف پاکستان کا ساتھ دے۔اندراگاندھی خود صدر نکسن سے ملنے واشنگٹن گئیں کہ وہ جنرل یحییٰ کو مشرقی پاکستان میں آپریشن سے روکے۔ نکسن نے سنی اَن سنی کر دی۔ وہ اندرا کو شدید ناپسند کرتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ امریکہ کو چین سے تعلقات قائم کرنے کیلئے پاکستان کی ضرورت ہے اور اس سے بڑھ کر پاکستان انہیں سٹریٹجک مفادات کیلئے چاہیے تھا ‘وہی ہوا جب روس افغانستان میں گھسا تو پاکستان کو فرنٹ لائن سٹیٹ کے طور پر استعمال کر کے اپنے پرانے دشمن کو تباہ کیا۔افغان وار کے ان دس برسوں میں امریکہ نے کھل کر پاکستان کومالی امداد دی‘ جدید ایف سولہ طیارے بھی دیے جو دنیا میں اُس وقت شاید امریکہ کے بعد اسرائیل اور ترکی کے پاس تھے۔ ان ایف سولہ طیاروں سے پاکستانی فضائیہ کو بھارتی فضائیہ پر برتری حاصل ہوئی۔اندرا گاندھی واشنگٹن سے جواب ملنے پر سیدھی ماسکو گئی۔ ماسکو کا مفاد تھا کہ پاکستان کو سبق سکھایا جائے کیونکہ جنرل ایوب خان نے اپنے مشہور زمانہ دورۂ امریکہ ‘جہاں ان کو بڑا پروٹوکول دیا گیا تھا‘ روس اور چین کی جاسوسی کیلئے امریکہ کو پشاور اور چٹاگانگ میں دو اڈے دیے تھے۔ اندرا کو فکر تھی کہ کہیں پاکستان کی مدد کو چین نہ آئے۔ روس نے کہا‘ وہ ہم پر چھوڑ دیں۔ روس نے یہی پیغام بیجنگ کو بھیجا کہ بھارت پاکستان کی جنگ میں نہ کودیں یوں چین دور رہا۔
نکسن نے چھٹا بحری بیڑا بھیجا جس پر آج تک امریکہ کو طعنے ملتے ہیں کہ وہ نہ پہنچ سکا۔ بعد میں امریکہ نے کہا کہ ہم تو سمجھ بیٹھے تھے کہ پاکستان بھارت کے خلاف لمبی جنگ لڑے گا۔ ہمیں کیا پتہ تھا کہ سولہ دن میں جنگ ختم ہو جائے گی۔ امریکن بیڑے کے وقت پر نہ پہنچنے پر سب پاکستانی ناراض ہیں لیکن خود ایک لمبی جنگ نہ لڑ سکے۔اسی امریکہ نے اپنے مفادات کے تحت ہمارے نیوکلیئر پروگرام سے نظریں چرائے رکھیں حالانکہ اسرائیل اور انڈین لابیز مسلسل وہاں شور مچا رہی تھیں کہ پاکستان ایٹم بم بنا رہا ہے لیکن دس سال تک امریکی صدر لکھ کر کانگریس کو دیتا رہا کہ پاکستان بم نہیں بنا رہا‘ لیکن جونہی روس افغانستان سے نکلا اگلے سال امریکی صدر نے سرٹیفکیٹ دینے سے انکار کر دیا۔ ہم نے پھر رولا ڈالا تو امریکہ نے کہا‘ ہمارا مفاد تھا ہم چپ رہے۔ آپ نے ہماری مدد کے بدلے ایٹم بم بنا لیا اور کیا چاہیے تھا تمہیں؟اسے ہمارے جیسے زرعی اور دیہاتی معاشروں کی خوبی کہیں یا المیہ کہ ہم مسکرا کر ملنے والے کو صرف دوست نہیں بلکہ ذاتی دوست سمجھ لیتے ہیں اور پھر اس کی بے وفائی پر طویل عرصے تک اس کے لیے اپنی خدمات اور احسانات جتاتے رہتے ہیں۔یہی احسان جب ہیلری کلنٹن کے سامنے گنوانے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے جواب دیا کہ آپ نے کب ہمارا کوئی کام مفت یا دوست سمجھ کر کیا ہے؟افغان جہاد میں ہم نے اربوں ڈالرز دیے‘ جدید اسلحہ دیا‘ ایف سولہ طیارے دیے اور ایٹم بم بنانے کی رپورٹس سے جان بوجھ کر نظریں چرائیں۔ اگرپرویز مشرف کے دور میں اڈے دیے توبھی ہم نے پاکستان کو اس کے بدلے 32 ارب ڈالرز امداد دی۔ امریکی اب تک 82 ارب ڈالرز کی امداد دے چکے ہیں۔ہیلری کا کہنا تھا کہ آپ نہ لیا کریں امداد اگر دوست ہیں تو مفت کام کر دیں یا پھر آپ کو لگتا ہے کہ یہ کام آپ کے قومی مفادات کے خلاف ہے تو انکار کر دیں ڈالرز لینے سے۔ ڈالرز بھی لینے ہیں اور ہمیں ہر روز یاد بھی دلانا ہے کہ ہم نے دوستی میں کام کیا اور جواب میں امریکہ کو بے وفائی کے طعنے بھی دینے ہیں۔
امریکیوں کی ایک خوبی کہیں یا کام کرنے کا طریقہ کہ اگر انہیں کام کرانا ہو اور اس کے لیے ان کے پاس آپشن ہو کہ وہ دوستی/سفارش پر بھی کراسکتے ہیں اور ڈالرز دے کر بھی وہ کام ہوسکتا ہے تو وہ ڈالرز دے کر کام کرائیں گے‘ وہ یاری دوستی کے چکر میں مفت کا کام نہیں کرائیں گے کیونکہ جو کام پیسے دے کر کرایا جاتا ہے اس میں نتیجہ سو فیصد نکلتا ہے۔اگر ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی ملک ہمارے مفادات پورے نہیں کررہاتو ہمیں کس نے منع کیا ہے کہ ہم ان کے مفادات پورے کرنے سے انکاری ہو جائیں ؟ ہم بھی یہ کام گاہے بگاہے کرتے رہتے ہیں۔ ابھی امریکہ اور یورپی ممالک اقوام متحدہ میں روس کے یوکرین پر حملے کے خلاف قرارداد پر پاکستان کا ووٹ چاہتے تھے۔ ان ملکوں نے پاکستان کے لیے اپنی خدمات بھی گنوائیں لیکن پاکستان کو لگا کہ ہمارا مفاد اس میں ہے کہ ہم ووٹنگ سے دور رہیں۔اس پر یقینا وہ ممالک پاکستان سے خوش نہیں ہیں کہ جب مدد اور ڈالرز درکار ہوں تو ہم سے لینے آتے ہیں اور انہی ڈالروں سے روس سے گندم خرید لیتے ہیں لیکن جب ہم کہیں ہمارے حق میں ووٹ ڈالیں تو نہیں ڈالتے۔ ہر ملک دوسرے ملک کو اپنے مفادات پر پرکھتا ہے‘ ہم بھی اپنا مفاد دیکھ کر امریکی جنگوں کا حصہ بنے اور اس کا فائدہ اٹھایا۔بہرحال یہ طے ہے کہ امریکی ہمارے روس کے خلاف ووٹ نہ ڈالنے پر ناراض ہیں۔ساتھ میں انہوں نے بھارت کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے کیونکہ پچھلے دنوں بھارت امریکہ تعلقات اچھے نہیں رہے۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے خلاف کچھ بیانات دیے۔ہم اس خطے کے لوگ بھی عجیب ہیں‘بھارتی خوش ہوتے ہیں جب امریکی پاکستان کے خلاف کوئی بیان دے دیں۔ کچھ عرصہ بعد امریکہ پاکستان کو خوش کرنے کیلئے بھارت کے خلاف بیان دے دیتا ہے۔اگر بھارت اور پاکستان کی اقوام کو کوئی ملک سمجھا ہے تو وہ امریکہ ہے۔
آج نیوکلیئر والے بیان پر بھارت میں خوشیاں ہیں تو چند دن بعد پاکستانی خوش ہوں گے کہ دیکھو امریکہ نے بھارت کی منجی ٹھوک دی۔اگر اس طرح کے آتے جاتے بیانات پر کبھی ہندوستان تو کبھی پاکستان کے لوگ ایک دوسرے کے خلاف بھنگڑے ڈالتے رہتے ہیں تو امریکہ کا کیا جاتا ہے؟(بشکریہ دنیانیوز)