تحریر: عرفان صدیقی۔۔
اب سے ٹھیک ڈیڑھ ماہ قبل پاکستان کے معروف اداکار تنویر جمال پہنچے تو انھیں پہنچاننا بھی مشکل ہوگیا تھا ،ن کی صحت انتہائی خراب تھی ، کینسر نے ان کی صحت کو سخت نقصان پہنچایا تھا ، ایسا محسوس ہورہا تھا کہ ان کا جسم ہر گزرتے دن کے ساتھ لاغر ہوتا جارہا ہے ، وزن تیزی سے کم ہورہا تھا ، کھانا کھانے میں انھیں شدید تکلیف محسوس ہورہی تھی ، قوت مدافعت ختم ہوچکی تھی لیکن وہ اپنی ہمت سے چل رہے تھے، میری تنویر جمال سے دس سال پرانی دوستی تھی ، گھروں پر آنا جانا تھا ، جاپان میں فلموں اور ڈراموں کی شوٹنگ ہوتی تو مجھے خاص طور پر دعوت دیتے ، اکثر فون پر رابطہ رہتا ، پچھلے چھ مہینے سے وہ کورونا کی پابندیوں کی وجہ سے جاپان نہیں آپارہے تھے ، پھر جاپانی حکومت نے سفری پابندیاں کم کیں تو تنویر جمال جاپان پہنچے ، وہ أئرپورٹ سے سیدھے میرے گھر آئے اور اگلے دس دن میرے مہمان رہے ، مجھے ان کی صحت دیکھ کر کافی تشویش ہوئی لیکن مجھے معلوم تھا کہ انھیں کینسر ہے اور آخری اسٹیج پر ہے اور ڈاکٹر انھیں جواب دے چکے ہیں۔ ایک دفعہ انھوں نے خود ذکر کرتے ہوئے کہا کہ چھ سال قبل جب انھیں کینسر کی بیماری کا علم ہوا تو اس وقت ہی کینسر کا چوتھا اسٹیج تھا جسے آپریشن کے ذریعے جسم سے نکال دیا تھا اور اس بات کو چھ برس بیت چکے تھے کہ اچانک انھیں دوبارہ کینسر کا مرض لاحق ہوگیااور دیکھتے ہی دیکھتے پورے جسم میں پھیل گیا ، پھر جب پاکستان میں ڈاکٹروں نے اس مرض کو لاعلاج قرار دے دیا تو وہ اپنے دوست اشرف چہل کے مشورے پر آخری کوشش کے طور پر جاپان آگئے،جاپان میں آخری دنوں میں ، میں ہر روز شام کو تنویر جمال کے پاس چلا جاتا وہ بھی سو کر اٹھ جاتے پھر ہم کبھی باہر کھانا کھانے جاتے تو کبھی پارک کی سیر کو جاتے ، انھیں جاپان سے بہت پیار تھا ، وہ یہاں کے موسم ، یہاں کے کھانوں کو پسند کرتے ، آخری دنوں میں وہ یہاں کی خوبصورتی کو انجوائے کرنا چاہتے تھے ، وہ جاپان کا ساکورا کا موسم دیکھنا چاہتے لیکن بدقسمتی سے جب وہ جاپان پہنچے تو ساکورا کا موسم ختم ہوچکا تھا ،وہ آخری دنوں میں بہت اداس رہا کرتے ، اکثر سوچوں میں گم رہتے وہ رشتوں کے بہت ٹھکرائے ہوئے تھے ،شاید اپنوںکے دیئے ہوئے اتنے صدمے نہ ملتے تو وہ مزید زندہ رہتے ، وہ بہت خودار انسان تھے کبھی اپنا درد کسی سے شیئر نہیں کرتے تھے ، پاکستان سے جاپان آنے سے قبل جیو کے مارننگ شو میں انھیں پروگرام میں آنے کی دعوت دی ، لیکن وہ سمجھتے تھے کہ وہ بہت بیمار ہیں اور اپنی اس کمزوری کو ،اپنی بیماری کو ٹی وی پر لاکر ہمدردیاں نہیں سمیٹنا چاہتے تھے ،شاید کم ہی لوگ جانتے ہوں کہ ان کی والدہ بھی حیات ہیں اور ان کے بھائی بھی موجود ہیں لیکن پھر بھی وہ سب کچھ چھوڑ کر آخری دنوں میں جاپان آگئے ،انھوں نے وصیت کی تھی کہ اگر ان کی وفات ہوجائے تو ان کی تدفین جاپان میں ہی کردی جائے ،رشتوں کے زخموں کی داستان ان کی امانت ہے جو مجھ تک ہی رہے گی ،انھیں اپنے خونی رشتوں سے زیادہ اپنے دوستوں پر بھروسہ تھا ، و ہ فنکاروں میں بہروز سبزواری ، مرینہ خان اور بشری انصاری کو پسند کرتے تھے جو آخر تک ان کی خیریت دریافت کرتے رہے ، جاپان میں اشرف چہل ، ملک نور اعوان،لالہ رفاقت، ملک یونس ،رانا عابد حسین ، اشرف جونی ، عاقل عراقی ، ملک ساجد جیسے دوستوں پر فخر کیا کرتے تھے جو ان کے دکھ سکھ کے ساتھی تھے ،انھیں اپنے بچوں سے بہت محبت تھی ،بچے شادی شدہ تھے لیکن پھر بھی تنویر جمال ان کی تمام خواہشات پوری کیا کرتے ، انھیں جاپان سے بھی بہت محبت تھی انھوں نے جاپان میں کئی ڈرامے شوٹ کئے ، جاپان کو پاکستان میں متعارف کرایا ، درجنوں فنکاروں کو جاپان لیکر گئے ،کئی فلمیںبھی جاپان میں شوٹ کیں ، لیکن ان کی دو فلمیں سینمائوں کی زینت نہ بن سکیں جس میں ان کے کروڑوں روپے لگے ہوئے تھے جس کا انھیں ملال تھا ،بلاشبہ تنویر جمال ان چند فنکاروں میں سے تھے جن میں خودداری اور رواداری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ،صدر ، وزیر اعظم ، وزرائے اعلیٰ اور وزیر اطلاعات نے تنویر جمال کی وفات پر اظہار افسوس کیا ہے امید ہے جاپانی حکومت بھی تنویر جمال کو ان کی خدمات پر بعد از مرگ ایوارڈ سے نوازے گی ، جاپان سے لیکر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سمیت پاکستان اور دنیا بھر میں ان کی مغفرت کے لئےخصوصی دعائیں مانگی گئی ہیں ، اللہ تعالیٰ انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ،الوداع تنویر جمال۔ آمین۔۔(بشکریہ جنگ)