تحریر: نواز طاہر
جدید مواصلاتی نظام میں دنیا بھر میں صحافت نکھری بھی ہی اور بکھری بھی ہے لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ صرف بکھری ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اعلیٰ بِکری کی بنیاد پر بکھری ہے تو بے جا نہ ہوگا ۔ حقائق و حالات یہ ہیں کہ’ آلو لے لو، ٹماٹر لے لو‘ کی گلیوں میں آواز کم آتی ہے، سوشل میڈیا پرکارڈ لے لو‘ صحافی بن جاؤ‘ ، کی صدائیں کہیں زیادہ ہیں ، روایتی میڈیا میں تو اس کے الگ سے ہی ’کاؤنٹر‘ کھلے ہوئے ہیں ۔ اسی مسئلے پر طویل مدت کے بعد گلوبل پنڈ کی کھلنے والی بیٹھک میں بحث جاری تھی ۔ اہم سوالات میں سرفہرست یہ تھا کہ یہ حالات کہاں تک جائیں گے اور اصل ذمہ دار کون ہے ؟ زیادہ تر سوالات ویسے ہی تھے جیسے ہمارے غیر تربیت یافتہ نوجون رپورٹرز کے پنے اوربلا تحقیق،حسبِ ِ خواہش اسائنمنٹ کی تعمیل کیے جانے والے سوالوں سے تھے ، خیر’ بونگیاں‘ توسینئرز بھی کم نہیں مارتے ۔۔ یہ الگ بات ہے کہ اشاعتی و نشریاتی اداروں کی اپنے مفادات کے تابع پالیسیوں میں اس کے ماسوا کیا بھی کیا جاسکتا ہے ؟ جب رپورٹر سوال کرے تواس کی نوکری باقی نہ رہے یا خطرے میں پڑ جائے نیوز روم میں کسی معاملے میں پیشی ورانا مثبت بات کرنے یا کسی معاملے میں استفسار بھی معاشی قاتل کی وجہ بنے تو پھر’بونگیوں ‘ سے ڈنگ ٹپایا جائے گا ۔بیٹھک میں جو سنجیدہ سوالات تھے وہ اپنی جگہ پر بہت سنجیدی بلکہ قابل توجہ اور ’تشویشناک ‘ ہیں ۔ ان سوالوں کے جواب معرضِ التوا میں رکھتے ہوئے میں صرف اتنی گرہ لگائی کہ اب تو حالات اس نہج پر آگئے ہیں کہ بے چارے کارکن اور کچھ ’دیگر‘ رپورٹر لے لو ، اینکر لے لو، ایڈیٹر لے لو، کنٹرولر لے لو‘ کی صدائیں دے رہے ہوتے ہیں ۔ کچھ کے اپنے آؤٹ لیٹ ہیں ، اس شعبے میں آڑھتی بھی ہیں ، ہول سیلرز اورریٹیلرز بھی ہیں ،سپلائرز بھی اپنےاسٹاک سمیت موجود ہیں ۔ مارکیٹ میں طلب اور رسد کے اصول کو خاص طور پر پیشِ نظر رکھا جاتا ہے ، جب چاہا جس آئٹم کی قلت پدا کردی ، جب چاہا اسٹاک مارکیٹ میں اچانک انڈیکس ہائی کردیا اور جب ضرورت پر مارکیٹ کریش کردی، اس پیشے میں ہنڈی حوالہ بھی اپنا الگ مقام رکھتا ہے ۔ اطلاعات و نشریات کے وفاقی و صوبائی ادارے بھی ،بیک وقت اسٹیٹ بینک بھی ہیں اور ایجنٹ بھی ہیں ان کی انتظامی سربراہی ہیں قانون کے بجائے فون کے تابعین کو سونپی جاتی ہے ۔ اشاعتی و نشریاتی اداروں کیلئے اشتہارات ریڑھ کی ہڈی ہیں لیکن سرکاری اشتہارات اسلامی جمہوریہ پاکستان میں صحافت کی تباہی کی بنیادی وجہ ہیں ۔ نجی بزنس اس سے بھی بڑا ٹول ہیں۔ اس وقت اگر میڈیا ہاؤز کے پہرنٹ آرڈر چیک کیے جائیں یا انتظامی اجلاسوں میں بیان کیے جانے والے اعدادو شمار کے مطابق بات کی جائے تو پرنٹ میڈیا کی حالت اس قدر پتلی ہے کہ جو اخبارات ہزاروں میں شائع ہوتے تھے اب سینکڑوں میں آگئے ہیں ، سرکاری طور پر جمع کروائے جانے والے ریکارڈ ( آڈٹ بیورو آف سرکولیشن یعنی اے بی سی سرٹفیکیٹ ) تو ابھی بھی یہ ہزاروں سے لاکھ کے درمیان تعداد اشاعت کے دعویدار ہیں، اسٹال دیکھیں تو رسالہ ، ڈائجسٹ اور میگزین دکھائی نہیں دیتے لیکن سرکاری ریکارڈ کے علاوہ یہ صرف آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی( اے پی این ایس ) اور کونسل آف نیوز پیپرز ایڈیٹرز کی انتخابی فہرست میں نظر آتے ہیں جبکہ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس ( پی ایف یو جے ) کے اندھا دھند دھڑوں اور پریس کلبوں کی انتخابی فہرستوں میں تواشاعتی و نشریاتی اداروں میں ایسے ایسے نامبھی ملیں گے جو شائدصرف انہی کے مالکان کو ہی یاد ہونگے ، خبر رساں ایجنسیوں کی تعداد بھی کم نہیں ، ان میں فعال کے نام ایک انگلی پر ختم ہوجاتے ہیں ، دیگر میں زیادہ تر وہ ہیں جن کا ووجود کاغذات میں ہے ، کچھ کے نام سے دفتر کھلے ہیں ، دھندے اور ہیں ۔ ۔جس طرح اشاعتی اداروں کی پراڈکٹس کے قارئیں کی تعداد کم ہوئی ہے ویسے ہیں نشریاتی اداروں کے سننے اور دیکھنے والوں کی تعداد کم ہوئی ہے۔ڈیجیٹل میڈیا کا تو خیراللہ ہی حافظ ہے۔ اصل وجہ سننے دیکھنے اور پڑھنے والوں کیلئے مواد کی عدم دستیابی ہے ، اس کے برعکس ذ ہنی کوفت کا موجب بننے والا موادز یادہ ہے ۔ اس کا ایسے میڈیا مالکان کو تو فائدہ ہے جو میڈیا مالک بننے کے بعد معاشرے میںمجرم سے محترم بن گئے ہیں۔ انہیں اپنے ساتھ لوگ بھی ہم مزاج اور اپنی جیسی خصوصیات رکھنے والے کِل پرچے چاہئیں ، یہی کِل پرزے پوری مشینری تباہ کررہے ہیں نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ پرزوں کو زنگ لگ رہا ہے یا دباؤ کی وجہ سے توٹ رہے ہیں اور کچھ اسپورٹنگ پرزے تو فالتو قراردیکر پھینک دیے جاتے ہیں جس سے مشینری چلتے چلتے رینگنے پر اور پھر رینگتے ہوئے یخنے پر آجاتی ہے اور ی چیخ دم توڑ جاتی ہے ، مشین کا ڈھانچہ البتہ مالک کی شان کسی حد تک برقرار رکھتا ہے اوسر اس شعبے کے ایوانِ صنعت و تجارت میں محترم رہتا ہے جو ہرسال ایک ایک بڑے تاجروں و صنعتکاروں کیلئے ووٹ میں مقام پاتا ہے ، اس ہٹی کی سالانہ آمدنی یہی ہے ۔ صحافت اور صحافیوں کے بلنے اور بکھرنے میں کس کا کیا کردار ہے اس کی پہلی ذمہ داری ہم کارکنوں کو ( پی ایف یو جے) پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے اپنے اندر پیدا ہوتے ایجنٹوں کو اپنی صفوں سے نکالنے کے بجائے پہلے برداشت کیا پھر اعلیٰ مقام دیا اور اب قیادت سونپ دی ہے ، مالکان اور ریاست پر اس کی ذمہ داری پر بات اگلی قسط میں کریں گے جس میں کارکنوں کا استحصال کرنے والے نام نہاد کارکن رہنماؤں پر بھی باقاعدہ نام اور کام کے ساتھ بات ہوگی ۔ گلوبل پِینڈ کی بیٹھک بحال ہوئی ہے اوراس کی پنچائت میں یہ مسئلہ زیر بحث آیا ہے تو پھر تفصیل اور دلیل کے ساتھ بات ہوگی ۔(نواز طاہر)۔۔