allama iqbal ne qom parasti ko hosla shikni ki

علامہ اقبال نے قوم پرستی کی حوصلہ شکنی کی، محقق ڈاکٹر ٹیپو صدیق۔۔

 معروف نیورو سائنٹسٹ، محقق اور مفکر، ماہر اقبالیات جناب ڈاکٹر ٹیپو صدیق نے کہا ہے کہ علامہ اقبال نے قوم پرستی کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے امت مسلمہ کے اتحاد کی بات کی ہے۔ ان کی زندگی کا مقصد امت مسلمہ کو ایک قوم بنانا تھا، اور آج کے نوجوانوں کو علامہ اقبال کے طرز زندگی سے آگاہی کی اشد ضرورت ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو کراچی پریس کلب اور کاروان اقبال کے تعاون سے علامہ اقبال کی شاعری اور افریقہ پر مسلمانوں کا قرض کے موضوع پر لیکچر دیتے ہوئے کیا۔تقریب میں صحافیوں، نوجوانوں، اساتذہ اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی اور انتہائی دلچسپی سے لیکچر سماعت کیا۔ اس موقع پر کراچی پریس کلب کے سیکرٹری شعیب احمد، ممتاز چیسٹ فزیشین ڈاکٹر سہیل اختر، اور کاروان اقبال کے مہتمم ڈاکٹر ظفر اقبال سمیت دیگر نے بھی خطاب کیا۔ڈاکٹر ٹیپو صدیق نے کہا کہ علامہ اقبال نے اردو اور فارسی میں شاعری کی، اور ان کی شاعری کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ ان کی شاعری عقل کو حیران کرنے والی اور انقلابی روح بیدار کرنے والی ہے۔ علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں غیر اللہ سے بغاوت اور توحید پر زور دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اقبال کی زندگی کا مقصد امت مسلمہ کو ایک قوم بنانا تھا، اور وہ جغرافیائی حد بندی اور موروثیت کے قائل نہیں تھے۔ ان کی بے پناہ محبت عالم اسلام اور رسول اکرم ﷺ کے ساتھ بے مثال عشق پر مبنی تھی۔ڈاکٹر ٹیپو صدیق نے کہا کہ بھوپال، حیدرآباد، افغانستان، ایران، تاجکستان اور ازبکستان کی سرزمین نے علامہ اقبال کو بے پناہ محبت دی، اور آج بھی حیدرآباد میں علامہ اقبال اکیڈمی موجود ہے۔ علامہ اقبال کو افغانستان سے بھی شدید محبت تھی، اور انہوں نے اپنے دورہ افغانستان کے دوران اپنی روحانی کیفیات کا تذکرہ کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اقبال نے فارسی میں “اسرار خودی”، “رموز بے خودی”، “پیام مشرق”، “جاوید نامہ” اور “ارمغان حجاز” جیسی کتب لکھی، جبکہ اردو میں “بانگ درا”، “بال جبریل”، “ضرب کلیم”، اورارمغان حجاز جیسی شاہکار تخلیقات پیش کیں۔ اقبال کے دور کو مشرقی اقوام کے لیے سیاسی بدحالی اور سماجی اضطراب کا دور کہا جا سکتا ہے، اور یہی درد ان کی شاعری میں نمایاں ہے۔اقبال کی شاعری میں فکر، تاریخ، اور علمی حقائق پر تبصرے موجود ہیں، لیکن ان کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اپنے پیغام، فلسفے اور فکر کو ادب عالیہ کا لباس پہنایا۔ ان کی فکر اور فلسفے سے مفکرینِ مشرق و مغرب دونوں متاثر ہوئے۔ اقبال کا اختصاص یہ ہے کہ انہوں نے زندگی کے ہر پہلو کو اسلامی نقطہ نظر سے دیکھا اور خودی کی تعمیر کے ذریعے مسلمانوں کو عظمتِ رفتہ کی بحالی کا راستہ دکھایا۔ڈاکٹر ٹیپو صدیق نے کہا کہ دنیا میں سب سے زیادہ مسلمان افریقہ میں بستے ہیں، اور اقبال نے اپنی شاعری میں افریقہ کا خصوصی طور پر ذکر کیا، انہیں “مردم چشم زمیں” کہہ کر مخاطب کیا ہے۔انہوں کہا کہ ہجرت حبشہ کے حوالے سے ملت اسلامیہ کے لئے اولین راحت کا سامان افریقہ کی سر زمین میں ہوا۔ سیدنا بلال کا تذکرہ اقبال کی شاعری میں واضح کیا۔ جن کی اذان آج زندہ اور رومی سلطنت افسانہ بن چکی۔انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ یہودیوں کی حکمرانی کا زمانہ محدود تھا، جبکہ مسلمانوں نے ساڑھے بارہ سو سال تک دنیا پر حکمرانی کی ہے۔آخر میں، کراچی پریس کلب کے سیکرٹری شعیب احمد کی جانب سے ڈاکٹر ٹیپو صدیق کو اجرک اور شیلڈ پیش کی گئی۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں