تحریر: بادشاہ خان۔۔
آزادی اظہار پر پابندی کا ایک بار پھر شور ہے،اس بارحکومت نے انتہائی خاموشی سے سوشل میڈیا کنٹرول کرنے کیلئے نئے قوانین بنالیے ہیں اور وفاقی کابینہ نے سوشل میڈیا قوانین کی منظوری بھی دیدی ہے۔ یوٹیوب، فیس بک، ٹوئٹر، ٹِک ٹاک کیلئے اسلام آباد میں دفتر کھولنا لازمی قرار دی گئی ہے، سوشل میڈیاکمپنیوں کی طرف سے عدم تعاون، قواعد پر عمل نہ کیا تو 50 کروڑ روپے تک جرمانہ ہوگا۔ حکومت نے قومی سلامتی، دہشت گردی، انتہا پسندی، نفرت انگیز تقریر، بدنامی اور جعلی خبروں سے متعلق آن لائن مواد کی روک تھام کو یقینی بنانے کیلئے سٹیزن پروٹیکشن (اگینسٹ آن لائن ہارم) رولز 2020کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ہے، جس کے تحت سوشل میڈیاکمپنیوں کی طرف سے عدم تعاون اور قوانین کی پابندی نہ کرنے کی صورت میں ان پر پچاس کروڑ روپے کا جرمانہ ہو سکے گا۔
اسی حوالے سے گذشتہ دنوں کراچی پریس کلب کے زیر اہتمام ہونے والی آل سندھ میڈیا کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ پیمر اویب ٹی وی لائسنگ کی تجویز کو یکسرختم کردیاجائے، پیمرا کے ویب ٹی وی کو لائسنس کرنے کے اقدامات بنیادی انسانی حقوق، جاننے کے حق اور معلومات تک رسائی کے حق کے منافی ہیں۔ سوشل میڈیا پہ قدغن بھی مسترد کیا جاتاہے۔پیمراکوخودمختار ادارہ بنایا جائے،کراچی پریس کلب کی دعوت پر ہونے والی کانفرنس میں وکلاء، سندھ بھرکے پریس کلب نمائندوں، صحافتی تنظیموں،سول سوسائٹی اورمختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی،کانفرنس کے شرکاء نے پیمرا کی جانب سے ویب ٹی وی چینلز اورانٹرنیٹ چینلزکولائسنسنگ کے مجوزہ قوانین کا جائزہ لیا اور ایوان نے باہمی بحث وتمحیص کے بعد ویب ٹی وی لائسنسنگ اور پابندیوں کی مختلف تجاویز کو یکسر مستردکردیا ہے،کانفرنس میں متفقہ قرارداد منظور کی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں انٹرنیٹ اور ویب کے پھیلاو کے ساتھ ہی عوام کااظہاررائے کے نئے پلیٹ فارم وجود میں آئے ہیں پیمر اویب ٹی وی لائسنگ کی تجویز کو یکسرختم کردیاجائے، پیمرا کے ویب ٹی وی کو لائسنس کرنے کے اقدامات بنیادی انسانی حقوق، جاننے کے حق اور معلومات تک رسائی کے حق کے منافی ہیں۔ پیمرا میں کسی بھی ریگولیٹر کے بجائے براہ راست مالکان اور سرمایہ کاروں سے رابطہ کیا جاتا ہے، پیمراسٹیلائٹ چینلز کے قوانین میں تبدیلی کرتے ہوئے پروفیشنل افراد سے رابطے کو یقینی بنایا جائے نیوز چینلز میں کہنہ مشق صحافیوں کو ڈائریکٹر نیوز تعینات کرکے ان سے رابطہ کیا جائے جس طرح پرنٹ میڈیا میں ایڈیٹر کی پوسٹ کوختم یا بے جان کردیا گیا ہے،اسی طرح نیوز چینلز میں جان بوجھ کر ڈائریکٹر نیوز کا عہدہ مضبوط ہونے ہی نہیں دیا گیا اسٹیٹ بینک جس طرح بینک کے صدر اور چیف ایگزیکیٹو کے عہدے کا تحفظ کرتا ہے اور مالکان کسی بھی بینک صدر کو بہ یک جنبش قلم نوکری سے فارغ نہیں کرسکتے ہیں اسی طرح ڈائریکٹر نیوز کی ملازمت کو بھی تحفظ فراہم کیا جائے،پیمرا اس وقت وزارت اطلاعات ونشریات کے ماتحت کام کرتا ہے جبکہ جس وقت یہ ادارہ قائم کیا گیا تھا وہ اسٹبلشمنٹ ڈویڑن کے ماتحت تھا۔ پیمر ا کو بھی اس طرح صرف تیکنیکی معاملہ تک محدود کیا جائے، پیمرا اپنے تفویض کردہ اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے آزادی اظہار آزادی صحافت پر قدغن کا باعث بن رہی ہے موجودہ حکومت صحافیوں کو ان کے جائزوقانونی حقوق دلوانے میں ناکام رہی ہے،اورمالکان کے ساتھ گٹھ جوڑ کے ذریعے بے روزگارکیا جارہا ہے اب تک ایک اندازے کے مطابق دس ہزار صحافیوں اور میڈیاورکرز بے روزگارہوچکے ہیں اس کے علاوہ تنخواہوں میں غیرقانونی کٹوتی اور تنخواہوں میں کئی کئی ماہ تاخیر جیسے مسائل کا سامنا ہے،صوبہ سندھ کے مختلف اضلاع کے ضلعی نمائندگان کو دیا جانے والا معاوضہ چینل اور اخباری مالکان نے بند کردیا ہے جس سے ان صحافیوں کی مالی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے، سندھ بھر کے صحافی اور میڈیاورکرز اپنے مطالبات پورے نہ کی صورت میں مرحلہ وار احتجاجی تحریک چلائی جائے گی اور وکلا کی مشاورت اور معاونت سے میڈیا پرپابندیوں بے روزگار کئے جانے کے بعد خلاف قانونی جنگ بھی لڑی جائے گی،کراچی پریس کلب میں ہونے والی سندھ میڈیا کانفرنس میں ایک علیحدہ قرار بھی منظور کی گئی جس میں کراچی پریس کلب کے رکن نصر اللہ چوہدری سمیت سندھ بھر میں میڈیا ورکرز پرقائم کئے گئے جھوٹے مقدمات کی مذمت کی گئی، تمام میڈیا ورکز پر بنائے گئے جھوٹے مقدامات فورا ختم کئے جائیں،
دوسری جانب وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کمیونیکیشن کیطرف سے جاری ایس آر اومیں کہا گیا ہے کہ سٹیزن پروٹیکشن (اگینسٹ آن لائن ہارم) رولز 2020کا اطلاق فوری طور پر ہو گا۔انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن سے متعلقہ انچارج وزیر پندرہ روز کے اندر قومی کوآرڈینیٹر کا تقرر کریں گے، جن کی معاونت سٹیک ہولڈرز پر مشتمل کمیٹی کریگی۔قومی کوآرڈینیٹر آن لائن سسٹم کے ضوابط سے متعلقہ افعال کی کارکردگی کے لئے اسٹیک ہولڈرز کی کوششوں کو مربوط کرنے کے ساتھ ساتھ وفاقی یا صوبائی حکومتوں کو تجاویز دینگے اور قومی سلامتی کے تقاضوں کے مطابق سوشل میڈیا کمپنیوں کے امور کو ریگولرائز کرنے کیلئے متعلقہ حکام، اداروں یا ایجنسیوں کو ہدایات جاری کر سکیں گے،۔متعلقہ سوشل میڈیا کمپنی متعلقہ حکام یا قومی کوآرڈینیٹر کی ہدایات پر عملدرآمد کرنے کی پابند ہوگی اور چوبیس گھنٹوں میں متنازعہ مواد کو ہٹائے گی یا اس تک رسائی کو ناممکن بنائے گی۔ہنگامی صورتحال میں متعلقہ سوشل میڈیا کمپنی چھ گھنٹوں کے اندر اندر ہدایات پر عملدرآمد کرنے کی پابند ہو گی، سوشل میڈیا کمپنی مذہبی، ثقافتی، اخلاقی اور قومی سلامتی سے متعلق امور کی حساسیت کا جائزہ لے گی اور فعال میکنزم کے تحت قانون و قواعد کے برعکس آن لائن سسٹم کے ذریعے دہشت گردی، انتہا پسندی، نفرت آمیز تقاریر، ہتک آمیز مواد، جھوٹی خبروں، تشدد پر اکسانے اور قومی سلامتی کیخلاف لائیو اسٹریمنگ کی روک تھام کو یقینی بنائے گی۔سوشل میڈیا کمپنی تین ماہ کے اندر اسلام آباد میں اپنا دفتر قائم کرے گی اور قومی کوآرڈینیٹر کے ساتھ معاونت کیلئے فوکل پرسن کا تعین کرے گی اور ایک سال کے اندر اندر پاکستان میں ڈیٹا بیس سرور قائم کرے گی تاکہ آن لائن مواد کو ریکارڈ کیا جاسکے۔سوشل میڈیا کمپنی انویسٹی گیشن ایجنسی کو معلومات فراہم کرنے کی پابند ہو گی،کوئی بھی شخص غیرقانونی مواد کو ہٹانے یا ختم کرنے کی شکایت وزارت، ڈویژن، منسلک محکمہ،قانون نافذ کرنے والے ادارے یا حکومتی انٹیلی جنس ایجنسی کو درج کراسکے گا۔سوال یہ ہے کہ اس قانون کے ذریعے مخالفین کی آواز کو دبایا جائے گا یا پھر مکمل آزادی اظہار کے خلاف استعمال کیا جائے گا، پیمرا تو ابھی تک الیکڑوانک میڈیا کے لئے قوانین پر عمل درآمد کرانے میں ناکام ہے،گیٹ کیپرہونا چاہی ہے، لیکن جیلر نہیں، پابندیاں اور ضابطے ہونے چاہی ہیں، لیکن اعتدال کے ساتھ، جبر کے ساتھ کبھی کوئی تحریک آواز دبائی نہ جاسکی، حکومت،ریاست مسائل کے حل پر توجہ دے، سب ٹھیک ہوجائے گا؟۔۔(بادشاہ خان)۔۔