بلاگ: سید حسنین عالم
ایک عرصے سے سرکاری اشتہاروں کی آڑ میں لفافے پر پلنے والے منہ پھٹ گستاخ میڈیا میں کئی روز سے کسی سنسرشپ نامی بلا کا تذکرہ ہو رہا ہےمگر راقم ایسی کسی بلا کو دیکھنے سے قاصر ہے راقم کا دماغ کچھ روز سے مثبت باتوں سے بھرا پڑا ہے اس لئے یہ تمام تر منفی صدائیں جھوٹ معلوم ہوتی ہیں۔۔
ایک پرانے اخبار کا ویران ویران سا چینل بند ہو گیا تو چند بڑبولے دانشوروں نے ٹویٹر کا محاذ سنبھال کر خالصتا جمہوری حکومت کو خوب تنقید کا نشانہ بنایا تو کچھ کو اس کے پیچھے غیر مرئی قوت کا ہاتھ نظر آیا مگر چند بے باک ،کھرے اور مثبت ذرائع سے پتا چلا کہ مذکورہ چینل عوام کے دل سے نواز شریف کی طرح اتر گیا تھا ریٹنگ آتی نہیں تھی بس جی کا جانا ٹھہر گیا تھا اب اس میں صاف شفاف حکومت کا قصور تلاشنے میں راقم ناکام رہا۔۔اسی شور میں اک دن خبر آئی کہ نصرت جاوید فارغ کر دئیے گئے خود ساختہ جالب ایک بار پھر ٹویٹر کا سہارہ لے کر نئے پاکستان کی نئی نویلی حکومت پر چڑھ دوڑے مگر کھرا سچ تو یہ ہے کہ نصرت صاحب عمر کی اتنی بہاریں دیکھ چکے کہ اب انہیں کام نہیں آرام ہی کرنا چاہیے اب بھلا ایک بزرگ کو اللہ اللہ کرنے کا موقع دینے میں کیا قباحت ہے؟
وقت کے خود ساختہ جالب ابھی ٹویٹر پر میں نہیں مانتا کی رٹ لگائے بیٹھے تھے کہ طلعت حسین کی جیو سے روانگی کی خبر پھیل گئی ان منفی لوگوں کو تو ویسے ہی موقع چاہیےپھر سے نئی نویلی حکومت کے خلاف باتیں ہونے لگیں پھر کسی کو اس کے پیچھے نامعلوم افراد نظرآنے لگے مگر حقیقت جلد آشکار ہوئی جب” آفٹر آل دانشور” شفاعت علی نے طلعت حسین کی ناکامی کا پردہ چاک کیا مثبت سچ تو یہ ہے کہ برسوں کی لفافہ صحافت کے بعد جنگ گروپ نے راہ راست پر آنے کا فیصلہ کرلیا ہے نیاپاکستان معرض وجود میں آچکا اب طلعت حسین کا بے تکا نیا پاکستان کون دیکھتا ؟
ایک نئی روایت چل نکلی ہے کالم صحافت کے میعار پر پورا نہ اترنے کے باعث چھپ نہ سکے تو ٹویٹر کا محاذ سنبھال کر سنسرشپ کا رونا دھونا شروع کردو سہیل وڑائچ جیسا جید آدمی بھلا کسی کے دباو میں کیونکر آئے گا؟ اچھا لکھو گے تو کالم چھپے گا مثبت بات اخبار کی زینت بنانے میں کیا قباحت ہے؟ فیس بک سے بگڑے لبرلز کی منفی تحریریں کانٹ چھانٹ کر چھپوانے کی کوشش کریں گے تو ناکامی تو ہوگی
سنسر شپ کا رونا دھونا بکاو میڈیا کا آخری حربہ ہے کھرا سچ تو یہ ہے کہ صحافت صابر شاکر کا روپ دھارے زندہ ہے صحافت ولی دوراں عامر لیاقت کے روپ میں آزاد ہے صحافت بھٹی صاحبان (عارف حمید، ارشاد) کی صورت بے باک و نڈرہے مبشر لقمان صاحب کو کھرا سچ بولنے سے کسی نےروکا؟ حسن نثار کے علم و حکمت سے لبریز تجزیوں پر کوئی قدغن؟سمیع ابراہیم سچ کا علم لئے باد مخالف سے نبرد آزما ہیں میرے نئے پاکستان میں سب اچھا ہےاب تمام منفی آوازوں کو خاموش ہو جانا چاہیے اور مان لینا چاہیے کہ ” بھیا آل از ویل”۔
نوٹ : مثبت تحریر شائع نہ ہوسکی تو کوئی بات نہیں خاموشی بھی ایک اظہار ہوتی ہے اور چھپ گئی تو ہونٹوں کو کر کے گول ہم بھی بولیں گے بھیا آل از ویل ۔۔(سید حسنین عالم)۔۔