تحریر: فاروق عادل۔۔
جیو کے رپورٹر #علی_عمران_سید بحفاظت واپس آگئے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ گزشتہ بائیس گھنٹے انھوں نے کہاں گزارے نیز وہ کون تھا جس کی انھیں ضرورت تھی؟ یہ سوالات ایسے ہیں جن پر اسرار کا پردہ پڑا ہوا ہے۔اس طرح کے سوالات اور ان کے ممکنہ جوابات کے بارے میں ایک ہی محاورہ صادق آتا ہے کہ جتنے منھ اتنی باتیں۔
#بی_بی_سی اور #سوشل_میڈیا پر خبریں ہیں کہ اس صحافی کا جرم یہ تھا کہ وہ #کراچی میں #مسلم_لیگ_ن کے راہ نما اور #مریم_نواز کے شوہر #کیپٹن_صفدر کی گرفتاری کی فوٹیج سامنے لائے، یہی ان کا جرم بن گیا، لہٰذا انھیں اٹھا لیا گیا۔
صحافی یا کچھ ایسے افراد جو کوئی ایسا مؤقف اختیار کرلیں جو کس کو پسند نہ ہو، غائب ہوتے آئے ہیں، ایسے لوگوں کو غائب کون کرتا ہے؟ اس سوال کا جواب آسان نہیں۔
اس ملک میں ہزاروں افراد اپنے پیاروں کی تصویریں اٹھائے ان کی بازیابی کے لیے آواز بلند کرتے ہیں۔ #شکیل_احمد_ترابی نے کچھ دن قبل ایک دل دوز انکشاف کیا کہ سچ لکھنے کی سزا ان کے بچے کو دی گئی پھر اس بچے کا پاکستان میں رہنا مشکل بنا دیا گیا بچہ اب تنو مند جوان ہے لیکن خاندان سے جدائی مقدر بن چکی ہے، پاکستان کو چھوڑ کر کہیں اور رہنے کی دلربا پیش کش بھی وہ مسترد کر چکے ہیں۔
انھیں پیش کش کی گئی کہ اپنے لخت جگر سے ملنے کی خواہش ہے تو کسی دوسرے ملک کو منتقل ہو جائیں۔
لاپتہ_فراد کا مسئلہ اتنا بڑا ہے کہ اس پر ایک کمیشن قائم کیا گیا۔ اعلیٰ عدالتوں نے بھی مداخلت کر کے کئی افراد کی بازیابی ممکن بنائی لیکن مسئلہ ابھی تک برقرار ہے۔ نئے افراد کے غائب ہونے کی خبریں بھی آتی ہی رہتی ہیں۔ اس ملک کے شہریوں کے غائب ہونے کے پس پشت بے شمار کہانیوں کے باوجود کوئی حتمی اور مصدقہ بات کہنی آسان نہیں۔ بس لے دے کر اشارہ سیکیورٹی اداروں کی طرف کر دیا جاتا ہے۔
سلامتی کے قومی اداروں اور قوم کے درمیان رشتہ بہت اٹوٹ ہوتا ہے، کوئی قوم ان کی عدم موجودگی میں پھل پھول سکتی ہے اور نہ یہ ادارے قوم کی تائید، حمایت اور محبت کے بغیر اپنی ذمہ داری ادا کر سکتے ہیں۔ سو فیصد یقین کے ساتھ کوئی دعویٰ نہیں کر سکتا کہ افراد کے غائب ہونے کے پس پشت ہمیشہ یہی لوگ ہوتے ہیں لیکن اس قسم کا تاثر ان رشتوں کی کمزوری کا باعث بنتا ہے۔ یہ صورت حال جہاں پوری قوم کے لیے باعث تشویش ہونی چاہئے، وہیں اداروں کے لیے بھی باعث غور و فکر ہے۔
گزشتہ کچھ عرصے سے سوشل میڈیا پر ایک طبقہ ابھرا ہے جو ریاستی تشدد کے فروغ کے حق میں آواز بلند کرتا ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ایمرجنسی نافذ کر کے ہر اس شخص کو جو ان کے نکتہ نظر سے اتفاق نہیں رکھتا، بے رحمی سے کیفر کردار تک پہنچا دیا جائے، خواہ وہ جج ہی کیوں نہ ہو۔ عمومی خیال یہی ہے کہ یہ انداز فکر سیکیورٹی کے اداروں کی حمایت میں ہے، ایسا ہے یا نہیں لیکن یہ سادہ دل لوگ دراصل عوام اور اداروں کے درمیان خلیج کو وسیع کرنے کا باعث بن رہے ہیں جو نہ اس ملک کے فائدے میں ہے اور نہ اداروں کے۔
اگر چہ نقصان بہت ہو چکا لیکن اس کے باوجود راستہ یہی ہے کہ قوم اور ادارے کسی ایک نکتے پر اتفاق کر کے اختلاف کی آواز اٹھانے والوں کو غیر سمجھنے کے بجائے گھر کا فرد سمجھیں اور انھیں دشمن کی طرف دھکیلنے سے گریز کریں۔
اسی طرح علی عمران سید جیسے لوگوں کی طرف سے اپنے پیشہ دارانہ فرائض کی انجام دہی پر اعتراض نہ کیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ جب کوئی ایک فرد غائب ہوتا ہے تو ہم محض ایک فرد کو مخالف سمت میں کھڑا نہیں کر دیتے بلکہ اس سے تعلق رکھنے والے بے شمار افراد کو اسی طرف دھکیل دیتے ہیں۔ سنو بال ایفیکٹ کی طرح پھر ایسے لوگوں کی تعداد بڑھتی ہی جاتی ہے۔ ناراض لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہمارے قومی مفاد کے حق میں نہیں۔(فاروق عادل )
(یہ تحریر سینئر صحافی فاروق عادل صاحب کی فیس بک وال سے لی گئی ہے، جس کے مندرجات سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔۔